سماج

فارغ التحصیل طلبہ کا کردار

پوری دنیا میں تعلیمی ادارے اپنے فارغ التحصیل طلبہ کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور ان کے لیے تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر اساتذہ اپنے کامیاب شاگردوں سے مل کر اپنے اندر نئی طاقت محسوس کرتے ہیں۔

فارغ التحصیل طلبہ کا کردار
فارغ التحصیل طلبہ کا کردار 

کچھ دنوں قبل اس کالج میں جانے کا موقع ملا جہاں سے ہم نے تعلیم حاصل کی تھی۔ اپنے پرانے اساتذہ سے مل کر ہم تو پرجوش تھے ہی، اساتذہ کی مسرت بھی دیدنی تھی۔ پرانی یادوں اور باتوں میں دیگر ہم جماعت طلبہ کے بارے میں استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی اب رابطے میں نہیں ہے۔ ہمارے ایک محترم سینیئر استاد نے بتایا کہ وہ کالج میں ایک کیریئر گائیڈنس کی ورک شاپ کا انعقاد کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس موقع پر اگر اسی کالج سے فارغ التحصیل طلبہ خطاب کریں تو موجودہ طالب علموں کے لیے ایک بہتر رہنمائی میسر آسکے گی۔ لیکن وائے افسوس کہ زندگی کے جھمیلوں نے ہم سب کو ایک دوسرے سے بے خبر کر دیا تھا اب کوئی بھی آپس میں رابطے میں نہیں رہا تھا۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ اس کالج سے اب تک نہ جانے کتنی ہی فارغ التحصیل طلبہ ایسے ہونگے جو مختلف شبعہ ہائے زندگی میں اپنا نام بنا چکے ہوں گے لیکن کالج میں ایسا کوئی ریکارڈ درج نہیں کیا جاتا، جس سے ان کو رابطہ میں رکھا جا سکے۔ کوئی میری طرح بھولا بھٹکا نکل آئے تو بات دیگر ہے ورنہ ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے کہ نئے طلبہ کو ان کی عملی زندگی کے حوالے سے کوئی رہنمائی دی جا سکے۔ ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں تو تعلیم ہی بمشکل مہیا ہو پاتی ہے تو علاوہ ازیں یہ بات سوچنا کہ ان کو اپنے مستقبل کے حوالے سے کچھ رہنمائی بھی دی جا سکے، عبث ہے۔

Published: undefined

دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ کرام کی اکثریت زندگی میں کبھی کسی بڑے ادارے سے منسلک نہیں رہی ہوتی ہے۔ لہذا ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ بچوں کو کارپوریٹ کلچر میں عملی زندگی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے رہنمائی دے سکیں گے ناممکنات میں سے لگتا ہے۔ تجارتی اداروں میں کون سی صلاحیتوں کی مانگ ہے، اپنے ملازمین سے ان کی توقعات کیا ہوتی ہیں ان سوالوں کے جواب ایک ایسا شخص بہتر طور پر دے سکتا ہے، جس نے اس ماحول میں وقت گزارا اور کامیابی کی سیڑھیاں اپنے بل بوتے پر طے کیں۔ اور ایک ایسا کامیاب شخص بچوں کے لیے ایک رول ماڈل کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ ان کے اپنے اساتذہ بےشک تعلیم کے حوالے سے اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں لیکن بچوں کی پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے کبھی بھی رول ماڈل ثابت نہیں ہو سکتے۔ خاص طور پر ہمارے ملک میں جہاں اساتذہ کرام کی سماجی حیثیت بچوں کے لیے کبھی بھی متاثر کن نہیں ہو سکتی۔ اپنے اساتذہ کو سڑکوں پر خواری کرتا دیکھ کر وہ کبھی بھی اس شعبے کا انتخاب نہیں کریں گے۔

Published: undefined

آپ میں سے اکثر لوگ اپنے بچپن میں کچھ اسی طرح کی سوچوں کا شکار رہے ہوں گے جیسا کہ ہم اپنے بچپن میں اسی فکر میں مبتلا رہتے تھے کہ بڑے ہو کر کون سا پیشہ اختیار کیا جائے۔ الجبرا جیسے خشک مضامین پڑھتے ہوئے اکثر سوچا کرتے کہ آخر ہمیں یہ پڑھنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہمارا عملی زندگی میں اس سے کیا واسطہ پڑنے والا ہے۔ ہمارے معاشرے کے بچوں کی اکثریت زندگی کے بےشمار سال گزارنے کے بعد بھی اس فیصلے پر نہیں پہنچ پاتی کہ مستقبل میں انہوں نے کون سا پیشہ اختیار کرنا ہے۔ یہاں تک کہ زندگی انہیں اٹھا کر عملی زندگی کے سمندر میں پھینک دیتی ہے اور پھر وہ ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے تقدیر کے سہارے کسی نہ کسی کنارے جا لگتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں جب پہلی نوکری ملی تو اس کے بعد قانون پڑھنا شروع کیا تاکہ اس نوکری میں ترقی کی بنیادی شرط پوری کر سکیں۔ اگر تعلیم کے دوران ہی بچے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا فیصلہ لے کر تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھائیں تو اتنا وقت ضائع نا ہو۔ یہ صورتحال یقینا ان گھرانوں میں نہیں ہے جہاں والدین خود تعلیم یافتہ اور کسی نہ کسی شعبہ زندگی میں ایک کامیاب پیشہ ورانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ والدین اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کی بہتر رہنمائی کر سکیں۔ لیکن اگر پورے ملک کی بات کی جائے تو ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی رہنمائی کرنے کے قابل نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں بہترین اداروں میں تعلیم دلانے کی استطاعت رکھتی ہے۔

Published: undefined

پوری دنیا میں تعلیمی ادارے اپنے فارغ التحصیل طلبہ کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور سالانہ تقریب نا سہی، چند سالوں بعد ایک ایسی تقریب ضرور رکھی جاتی ہے، جس میں ان تمام فارغ التحصیل طلبہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ان تمام سابق طلبہ کا نہ صرف آپس میں رابطہ ہوتا ہے بلکہ ان کے اساتذہ بھی اپنے کامیاب شاگردوں سے مل کر اپنے اندر نئی طاقت محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ شاگرد کی کامیابی ہی دراصل ایک استاد کی اصل کامیابی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی نئے طلبہ ان کو دیکھ کر، مل کر رہنمائی لیتے ہیں اور اپنے آنے والے کل کی بہتر انداز میں منصوبہ بندی کر پاتے ہیں اور دیکھا جائے تو تعلیمی اداروں کے لیے بھی ان سابق طلبہ سے رابطہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنے سابقہ ادارے کے لیے فنڈ اکھٹے کرنے اور ادارے کی ساکھ بنانے میں یہ لوگ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

Published: undefined

کالج کے علاوہ یونیورسٹی لیول پر بھی ایسی تقریبات کا انعقاد کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے طلباء اپنی ہی یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے ان لوگوں کو جب زندگی کے میدان میں کامیابی سے گھوڑے دوڑاتے دیکھتے ہیں تو متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتے اور پھر ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی کی اگلی منزل کا تعین آسانی سے کر پاتے ہیں اور پھر جب ایک ادارے سے اتنے سارے طلبہ عملی زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہوتے ہیں تو یقینا اس یونیورسٹی کا نام روشن کرتے ہیں۔ اس طرح ان طلباء سے سماجی رابطوں کا ایک مربوط سلسلہ کسی ادارے کے لیے انتہائی قیمتی ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے تجارتی ادارے مختلف یونیورسٹیز میں Job fair لگاتے ہیں۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے طلبہ بہترین آسامیوں تک باآسانی رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ ساتھ ہی طلبہ میں یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ کل کو انہیں بھی اس مقام تک پہنچنا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے اس طرح کی سہولت مہیا کر پائیں، جس طرح اس وقت انہیں اس ادارے کے سابق طلبہ کی طرف سے ایک آسانی مل رہی ہے۔

Published: undefined

انفارمیشن کے اس دور میں ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا ہمارے بچوں کی پہنچ میں ہے اور وہ ہر طرح کی معلومات تک رسائی رکھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد صرف ٹک ٹوک تک ہی محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج فارغ التحصیل طلبہ سے سماجی رابطوں کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ تاکہ اس دور کے بچے اسکرین پر نظر آنے والے خوابوں سے باہر آکر حقیقی زندگی کے تقاضوں اور دشواریوں کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ عملی میدان میں صرف کتاب کا رٹا کافی نہیں ہے۔ آپ کو کیسے کپڑے پہننے ہیں، کیسے بات کرنی ہے، کونسی سافٹ اسکل سیکھنی ضروری ہے، یہ سب بھی اہم ہے۔ اگر ہمارے تعلیمی ادارے اپنے کامیاب طلبہ کا ریکارڈ رکھیں اور ان میں سے کوئی ایک یا دو پیشہ ور لوگ آکر اپنے شعبہ کے حوالے سے بچوں کی رہنمائی کریں، ان کے گرو بنیں تو انہیں آگے بڑھنے میں بہت مدد ملے گی۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined