اگست 2017 میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائی، جسے اقوام متحدہ ممکنہ نسل کشی قرار دیتا ہے، کے بعد تقریباً ساڑھے سات لاکھ روہنگیا باشندوں کو میانمار سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔ آنگ سان سوچی اس وقت ملک کی اصل حکمراں تھیں اور انہوں نے روہنگیاوں کی عصمت دری اور قتل سمیت دیگر زیادتیوں کے معاملے کی سن 2019 میں بین الاقوامی عدالت میں سماعت کے دوران میانمار کی فوج کا دفاع کیا تھا۔
Published: undefined
سوچی کو حراست میں لیے جانے کی خبر کل پیر کے روز بنگلہ دیش میں روہنگیائی پناہ گزینوں کے خیموں میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ انتہائی بھیڑ بھاڑ والے ان خیموں میں تقریباً دس لاکھ روہنگیائی مسلم پناہ گزین رہتے ہیں۔
Published: undefined
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین بستی کٹوپالونگ میں روہنگیائی پناہ گزینوں کے ایک رہنما فرید اللہ نے کہا”وہ ہماری مصیبتوں کی جڑ رہی ہیں۔ آخر ہم خوشی کیوں نہ منائیں۔"
Published: undefined
ایک دوسرے کیمپ بالو کھالی میں ایک دیگر روہنگیائی رہنما محمد یوسف کا کہنا تھا”وہ حالانکہ ہماری آخری امید تھیں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ ہونے والے استحصال پر آنکھیں موند لیں اور روہنگیاوں کی نسل کشی کی حمایت کی۔"
Published: undefined
نوبل امن انعام یافتہ سوچی کے ساتھ ہونے والے اس 'انصاف‘ پر شکرانہ ادا کرنے کے لیے بعض روہنگیاوں نے دعائیہ تقریب کا بھی اہتمام کیا۔ نیا پاڑہ کیمپ میں رہنے والے ایک پناہ گزین مرزا غالب کا کہنا تھا”اگر کیمپ کے حکام ہمیں اجازت دیتے تو آپ دیکھتے کہ ہزاروں روہنگیائی جشن منانے کے لیے باہر نکل آتے۔“
Published: undefined
روہنگیا اسٹوڈنٹ یونین کے ترجمان ماونگ کیاومن نے کہا کہ اب روہنگیاوں کے میانمار میں اپنے گاوں واپس لوٹ جانے کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا”ایک منتخب حکومت کے برخلاف اس فوجی (حکومت) کو برقرار رہنے کے لیے عالمی حمایت کی ضرورت ہوگی اس لیے ہمیں امید ہے کہ وہ بین الاقوامی دباو کو کم کرنے کے لیے روہنگیا مسئلے پر توجہ مرکوز کریں گے۔"
Published: undefined
Published: undefined
دریں اثنا اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فوجی بغاوت کی وجہ سے میانمار میں اب بھی موجود تقریباً چھ لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کی حالت مزید خراب ہوسکتی ہے۔
Published: undefined
اقو ام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن جارک نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”میانمار کے رکھائن ریاست میں اب بھی تقریباً چھ لاکھ روہنگیا موجود ہیں۔ ان میں ایک لاکھ بیس ہزار وہ لوگ شامل ہیں جنہیں کیمپوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ آزادانہ کہیں بھی نہیں جاسکتے جبکہ صحت اور تعلیمی خدمات تک ان کی رسائی انتہائی محدود کردی گئی ہے۔"
Published: undefined
اقوام متحدہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا”ہمیں خدشہ ہے کہ ان کے لیے حالات مزید ابتر نہ ہوجائیں۔"
Published: undefined
اقوام متحدہ اور مغربی ممالک نے 2017 میں رکھائن ریاست پر فوجی کارروائی کے بعد میانمار کی فوج پر نسل کشی کا الزام لگایا تھا۔ میانمار کی فوج تاہم اس سے انکار کرتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز