بھارت میں نئے سال کا آغازمسلم خواتین کے لیے ایک مشکل کے ساتھ ہوا۔ سوشل میڈیا پر 'بُلّی بائی' نامی ایک ایپ پر 100سے زائد مسلم خواتین کی تصویریں ڈال دی گئیں اور اس پر لکھا گیا کہ یہ برائے فروخت ہیں۔ گزشتہ عید کے موقع پر بھی 'سُلّی ڈیلز' نامی ایپ کے ذریعہ مسلم خواتین کی بولی لگائی گئی تھی۔
Published: undefined
جن خواتین کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی ہیں ان میں معروف اداکارہ شبانہ اعظمی سمیت دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج کی اہلیہ، متعدد صحافی، سماجی کارکن اور سیاست دان شامل ہیں۔ صحافی عصمت آرا ان خواتین میں شامل ہیں جن کی تصویریں 'بُلّی بائی' پر ڈالی گئی ہیں۔ انہوں نے اس کے خلاف دہلی پولیس کے سائبر سیل میں شکایت درج کرایا ہے۔
Published: undefined
عصمت آرا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،"ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا۔ پہلے بھی سمجھدار لوگوں نے اس کی نکتہ چینی کی تھی۔ ایف آئی آر بھی درج ہوئی تھی۔ خواتین کمیشن نے بیان دیا تھا۔ پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی تھی لیکن کوئی نتیجہ نکلنا تو دور کی بات ابتدائی پیش رفت بھی نہیں ہوسکی۔''
Published: undefined
عصمت آرا نے بتایا کہ دہلی اور ممبئی میں دو مقامات پر کیس درج کرائے گئے ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ قصورواروں کے خلاف اس مرتبہ کارروائی ضرور ہوگی کیونکہ''ایسی حرکتیں کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔''
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ حق کی آواز بلند کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاسکے۔ عصمت آرا کا کہنا تھا،''ہمارے والدین بھی گھبرائے ہوئے ہیں، بہنیں بھی پریشان ہیں کہ سوشل میڈیا پر یہ تضحیک آمیز رویہ کہیں حقیقی خطرہ بن کر سامنے نہ آجائے اور ہم پر براہ راست حملے کردیے جائیں۔" عصمت آراکا کہنا تھا،" حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے لیکن ابھی تک ہمیں ایسی کوئی بھی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔''
Published: undefined
گزشتہ برس جون میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ عید کے موقع پرسوشل میڈیا پر "سلّی ڈیلز" نامی ایپ پر 80سے زائد مسلم خواتین کی تصاویر کے ساتھ انہیں"برائے فروخت " کہا گیا تھا۔ اس کے خلاف دہلی اور نوئیڈا میں الگ الگ کیس درج کرائے گئے تھے تاہم اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
Published: undefined
معرو ف ریڈیو جاکی (آر جے) صائمہ کا نام بھی 'بُلّی بائی' کی فہرست میں شامل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔"میرے لیے سب سے بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت میں کچھ حیران کن رہ ہی نہیں گیا۔" انہوں نے کہا،" بھارت میں گالی دینا اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف توہین آمیز باتیں کرنا ایک کلچر بنتا جارہا ہے۔ اب کھلے عام حیوانیت کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اور اس لیے بھی تکلیف دہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا قانون مرچکا ہے۔ قصور وار آخر گرفتار کیوں نہیں کیے جاتے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔''
Published: undefined
صائمہ کا کہنا تھا،"ایسے مجرموں کے خلاف ہر ایک کو آواز بلند کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی ان کی زد میں آسکتا ہے۔ نفرت کرنے والے کسی کو نہیں چھوڑتے۔''
Published: undefined
متاثرین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عورتوں اور بالخصوص مسلم خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ انہیں روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے جاتے۔ صائمہ کا کہنا تھا،"سب سے بڑی ذمہ داری حکومت اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر ہوتی ہے۔ اگر وہ اس امرکو یقینی بنائیں کہ غلط کا ساتھ نہیں دینا تو یہ سنگین مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوسکتا ہے۔''
Published: undefined
انہوں نے کہا اصل سوال قانون کی حکمرانی کا ہے۔ ہم کس طرح کا سماج بنانا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر ہم تو جنگل کے دور میں چلے جائیں گے۔
Published: undefined
مختلف سماجی امور پر اپنے ریڈیو پروگرام سے لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرنے والی صائمہ کہتی ہے کہ سماج پر بھی بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔"ہمارے سماج میں اکثر متاثرہ لڑکیوں یا خواتین کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف والدین بلکہ پڑوسیوں اور دوست احباب کو بھی متاثرہ خواتین کی مدد کرنی چاہیے، ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور یہ یقین دلانا چاہیے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔''
Published: undefined
اس سوال کے جواب میں کہ آخر مسلم خواتین کو اس طرح ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے؟ صائمہ کا کہنا تھا کہ 'بُلّی بائی' اور 'سلّی ڈیلز' جیسی حرکت کرنے والے سوچتے ہیں کہ ایک مسلم لڑکی آخر حق کے لیے آواز بلند کرنے کی جرأت کیسے کرسکتی ہے۔ وہ کامیاب کیسے ہوسکتی ہے؟وہ آزاد خیال کیسے ہوسکتی ہے؟''
Published: undefined
متعدد سماجی اور سیاسی رہنماوں نے بھی 'بُلّی بائی' معاملے کی مذمت کی ہے اور حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا،" خواتین کی توہین اور فرقہ وارانہ منافرت صرف اسی وقت رک سکتی ہے جب آپ اس کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہوجائیں۔ سال بدل گیا ہے اس لیے آپ اپنی قسمت بھی بدلیں اور یہ آواز بلند کرنے کا وقت ہے۔''
Published: undefined
مہاراشٹر میں حکمراں شیو سینا پارٹی کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے لکھا،" میں نے بارہا آئی ٹی وزیر ایشونی ویشنو سے کہا ہے کہ سلی ڈیلز جیسے پلیٹ فارم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جہاں عورتوں سے نفرت اور انہیں فرقہ وارانہ طور پر شکار بنانے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ شرم کی بات ہے کہ اسے اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔'' قومی خواتین کمیشن کی چیئرمین ریکھا شرما نے ٹویٹ کرکے بتایا،"معاملے کو نوٹ کرلیا گیا ''ہے۔
Published: undefined
اس معاملے کی زبردست مذمت اور نکتہ چینی کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشوینی ویشنو نے ایک ٹویٹ کرکے اطلاع دی کہ " گٹ ہب، جس پر ایپ اپ لوڈ کیا گیا تھا، نے " بلّی بائی" ایپ کو بلاک کردیا ہے اور مزید کارروائی کے لیے ہم رابطے میں ہیں۔'' ادھر ممبئی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ معاملے کا نوٹس لیا گیا ہے اور متعلقہ حکام سے مزید کارروائی کے لیے کہا گیا ہے۔
Published: undefined
پہلے'سلی ڈیلز' اور اب 'بُلّی بائی' کو بھارت میں اسلاموفوبیا کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ پیشے سے کمپیوٹر انجینئر آفتاب احمد نے ڈی ڈبلیو اردوسے بات کرتے ہوئے کہا،''بلی بائی نے مسلم خواتین کی توہین نہیں کی ہے بلکہ اس ذلیل، جاہل اور عصمت دری کے کلچر کی حقیقت دنیا کو بتادی ہے جس میں خواتین کو صرف استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے۔''
Published: undefined
بہت سے ہندو افراد نے تاہم سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلم خواتین سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ ایک ہندو کے طور پر وہ شرمندہ ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined