سماج

بھارت: فرضی انکاونٹر کے بڑھتے واقعات

سپریم کورٹ کی ہدایات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیلوں کے باوجود بھارت میں فرضی انکاونٹر کے واقعات کا سلسلہ رک نہیں سکا ہے۔ سپریم کورٹ نے دسمبر 2019 کے حیدرآباد پولیس انکاونٹر کو بھی فرضی قرار دیا۔

بھارت: فرضی انکاونٹر کے بڑھتے واقعات
بھارت: فرضی انکاونٹر کے بڑھتے واقعات 

سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ جسٹس وی ایس سرپرکار کمیشن نے حیدرآباد انکاونٹر کی انکوائری رپورٹ میں کہا کہ"متوفی مشتبہ افراد پر پولیس افسران کی جانب سے جان بوجھ کر کی جانے والی فائرنگ کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ہماری رائے میں ملزمین نے جان سے مارنے کی نیت سے گولیاں چلائیں اور انہیں یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں مشتبہ افراد ہلاک ہوجائیں گے۔"

Published: undefined

کمیشن نے اس انکاونٹر میں شامل 10پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے۔

Published: undefined

کیا تھا معاملہ؟

تلنگانہ پولیس نے تین نوعمر لڑکوں سمیت چار افراد کو دسمبر 2019میں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ پولیس نے دعوی کیا تھا کہ یہ چاروں میڈیکل کی ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور پھر اسے زندہ جلادینے کے واقعے میں ملوث تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ جب وہ ان چاروں افراد کو جانچ کے سلسلے میں حیدرآباد میں اس مقام پر لے گئی جہاں طالبہ کو جلایا گیا تھا تو چاروں ملزمین نے پولیس پر پتھراو کیا اور پھر فرارہونے کی کوشش کی۔ پولیس کو اپنی دفاع میں فائرنگ کرنا پڑی جس میں چاروں افراد مارے گئے۔

Published: undefined

اس واقعے پر پولیس کی زبردست تعریف کی گئی تھی اور ان کے 'کارنامے' کو سراہا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کی مقرر کردہ کمیشن نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے اپنے بیانات میں ہی کافی تضادات ہیں اور پولیس کے اقدام کو کسی بھی صورت میں درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

Published: undefined

بھارت میں فرضی انکاونٹر کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں فرضی انکاونٹر کے واقعات میں کافی تیزی آئی ہے۔ اترپردیش میں بھی ایسے انکاونٹر کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جہاں وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے حکومت سنبھالنے کے بعد مجرموں کو "ٹھونک دینے " (گولی ماردینے) کا اعلان کیا تھا۔ا س اعلان کی خاصی نکتہ چینی بھی ہوئی تھی۔

Published: undefined

سترہ برس میں 1782 فرضی انکاونٹر

حق اطلاعات قانون کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق بھارت میں سن 2000سے سن 2017کے درمیان فرضی انکاونٹر کے 1782کیس درج کیے گئے۔ سب سے زیادہ 794یا 44 فیصد انکاونٹر اترپردیش میں ہوئے۔تاہم ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق یوگی حکومت میں صرف ڈھائی برس کے دوران ساڑھے تین ہزار سے زائد انکاونٹر ہوئے جن میں 73مجرموں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا۔

Published: undefined

سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سترہ برسوں کے دوران آندھرا پردیش میں 94، بہار میں 74، جھارکھنڈ میں 69، آسام میں 69 اور منی پور میں انکاونٹر کے 63واقعات درج ہوئے۔ دہلی میں اس دوران انکاونٹر کے 40اور جموں و کشمیر میں 22کیسز درج کیے گئے۔

Published: undefined

فرضی انکاونٹر ایک سنگین معاملہ

کشمیر میں ہونے والے انکاونٹر پر انسانی حقوق کی ملکی اوربین الاقوامی تنظیمیں اکثر سوال اٹھاتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ کشمیر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (افسپا) نافذ ہے اس لیے بھارتی فوجی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے کے باوجود بھی اس قانون کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔

Published: undefined

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹوں میں بھارت سے افسپا کو ختم کرنے کی بارہا اپیل کی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ "افسپا ایک ایسا غلط قانون ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پناہ دیتا ہے۔ اس قانون کی موجودگی میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے باوجود سکیورٹی فورسیز کے خلاف کوئی مقدمہ چلانا تقریباً ناممکن ہے۔"

Published: undefined

ہیومن رائٹس واچ کی ساوتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا ہے کہ اگر سکیورٹی فورسز کوقانون کی خلاف ورزی کرنے پر قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا تو تشدد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔

Published: undefined

اترپردیش کے سابق اعلی پولیس افسر وی این رائے کا کہنا ہے کہ 'فرضی انکاونٹر ایک سنگین معاملہ ہے۔ تمام انکاونٹرس میں پولیس نے ایسے لوگوں کوبھی مارا ہے جو کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں رہے۔ آخر ایسے لوگوں کو پولیس کیسے مجرم قرار دے سکتی ہے۔"

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined