چودہویں صدی کے وسط میں بیوبونک طاعون نامی وبا نے کئی براعظموں کو اپنی زد میں لے لیا تھا۔ اس وبا سے یورپ، ایشیا اور شمالی افریقہ میں کروڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حالانکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ وبا تجارتی شاہراہوں کے ذریعہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں پھیلی ہوگی۔ اس وبا کے شروع ہونے کے اسباب کا پتہ لگانے کی کافی کوششیں کی گئیں تاہم ٹھوس ثبوتوں کے فقدان میں یہ سوال اب تک حل طلب تھا۔
Published: undefined
جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں بشریات کے پروفیسر جوہانس کراوس نے نئی تحقیقات کے حوالے سے بتایا،"ہم نے بنیادی طور پر مقام اور وقت کا پتہ لگالیا ہے۔ یہ حقیقتاً ایک بڑی کامیابی ہے۔ ہمیں نہ صرف سیاہ موت سے ہلاک ہونے والوں کے آباء کا پتہ چل گیا ہے بلکہ دنیا میں آج طاعون کے اثرات کو پھیلانے والی اکثریت کے پرکھوں کے بارے میں بھی معلوم ہوگیا ہے۔"
Published: undefined
اس وبا کے معمے کو حل کرنے والی مشترکہ بین الاقوامی ٹیم کو اس وقت بڑی کامیابی ملی جب اسٹرلنگ یونیورسٹی کے مورخ ڈاکٹر فلپ سلاوین کو سن 1330کی دہائی کے اواخر میں اچانک بڑی تعداد میں ہونے والی اموات کے شواہد مل گئے۔ یہ شواہد انہیں موجودہ کرغزستان کے شمال میں واقع آسیک کل جھیل کے قریب واقع دو قبرستانوں میں ملے۔
Published: undefined
سلاوین نے پایا کہ سن 1248 سے 1345کے درمیان بڑی تعداد میں اموات ہوئی تھیں۔ وہاں موجود 467 قبروں میں سے 118 کے لوح ِمزار پر موت کی وجہ "مواتین" درج تھی۔ اس سیریائی لفظ کا مطلب ہوتا ہے"طاعون"۔
Published: undefined
مزید تحقیقات کے لیے تقریباً 30 ڈھانچے قبروں سے نکالے گئے اور ان کی جانچ کی گئی۔ اس جانچ کے نتائج ڈی این اے کے ماہرین کو بھیجی گئی۔ انہوں نے ان انسانی ڈھانچوں میں سے سات کے دانتوں کا تجزیہ کیا۔ ان میں سے تین کے بارے میں یہ ثابت ہوگیا کہ ان کی موت کی وجہ بیوبونک طاعون تھی۔
Published: undefined
حتمی تجزیے سے پتہ چلا کہ یہ وہ لوگ تھے جو طاعون سے براہ راست متاثر ہوئے تھے اور جس کے نتیجے میں آٹھ برس بعد یورپ میں 'سیاہ موت' کی وبا پھیل گئی۔ اور اگلی ایک دہائی کے دوران یورپ میں نصف سے زائد آبادی کی موت کی وجہ غالباً یہی وبا تھی۔
Published: undefined
سائنس دانوں کا ابتدا میں خیال تھا کہ یہ وبا غالباً دسویں صدی کے اوئل میں آئی ہوگی تاہم وہ کوئی حتمی تاریخ مقرر کرنے میں ناکام رہے تھے۔
Published: undefined
تحقیقاتی ٹیم کے رکن فلپ سلاویان نے کہا،"ہم سیاہ موت کے آغاز کے اسباب کے حوالے سے صدیوں پرانے تمام تنازعات کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
Published: undefined
سن 1346 سے 1353کے درمیان صرف آٹھ برسوں کے دوران اس طاعون کے نتیجے میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔
Published: undefined
آج طاعون کا علاج موجود ہے، اینٹی بایوٹک دواوں سے اس کا علاج ممکن ہے لیکن جس وقت 'سیاہ موت' نامی وبا پھیلی تھی اس وقت طاعون ایک لاعلاج بیماری تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined