پاکستان سیاسی اور معاشی دونوں حوالوں سے ارتقاء کے عمل سے گزر رہا ہے۔ 2018ء میں پانچ سال بعد دوبارہ انتخابات ہوئے، تو ان کے نتیجے میں سویلین سطح پر انتقال اقتدار کا مرحلہ اپنی تکمیل کو پہنچا، جو اس ملک کی تاریخ میں مقابلتاً بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ 2017ء میں دو دہائیوں کے وقفے سے قومی سطح پر مردم شماری بھی کرائی گئی، جس کے نتائج کے مطابق ملک میں مذہبی اقلیتوں کی مجموعی تعداد کم ہوئی ہے۔
Published: undefined
حالیہ برسوں میں ملک میں نشریاتی ذرائع ابلاغ حکومتی کنٹرول کے دور سے آگے نکل کر ایک فروغ پاتی نجی صنعت کی شکل اختیار کر گئے ہیں جبکہ خبروں کے حوالے سے آن لائن میڈیا کا حصہ بھی بڑھ گیا ہے اور سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کا عمومی بیانیہ بھی اقتدار کی سیاست کے کھلاڑیوں کے سحر سے نکل کر انسانی حقوق پر مرکوز ہوتا نظر آتا ہے۔
Published: undefined
پاکستان کا سیاسی، مذہبی، نسلی اور لسانی تنوع آج اس نہج پر ہے، جہاں اس کا گہرا مطالعہ اور تفصیلی جائزہ لیا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اسی حوالے سے پاکستانی سول سوسائٹی کے ایک ادارے نے ملکی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی پر اہم تحقیق کی ہے۔ یہ تحقیق انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کے تعاون سے کی گئی۔
Published: undefined
اس تحقیق کے مقاصد بیان کرتے ہوئے پاکستانی غیر حکومتی ادارے انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ) کے سربراہ محمد آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی اگرچہ محض چند فیصد ہے لیکن یہ تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پاکستانی مذہبی اقلیتیں سماجی اور سیاسی تبدیلی کے موجودہ دور میں ملکی میڈیا میں اپنی نمائندگی کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔
Published: undefined
اس ریسرچ کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے آفتاب عالم نے کہا کہ پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں کے مخصوص مسائل کی کوریج کا رحجان بہت کم ہے اور انہیں عموماً خبروں سے باہر ہی رکھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں سے متعلق ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان سے متعلق خبروں اور تصاویر میں میڈیا کی دلچسپی نہ صرف بہت کم ہے بلکہ انہیں زیادہ تر میڈیا کوریج میں مصیبت زدہ سماجی طبقے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
Published: undefined
آفتاب عالم کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو بالعموم میڈیا میں ایک ایسے غیر جانبدار طبقے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جسے نہ تو کوئی مسائل درپیش ہیں اور نہ ہی جس کی مشکلات کے حل کے لیے کسی کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ان حالات میں ان مذہبی اقلیتوں کی ملکی میڈیا کے بیانیے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت مزید کم ہو جاتی ہے۔
Published: undefined
’ارادہ‘ کے سربراہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی میڈیا میں مذہبی اقلیتوں سے متعلق تھوڑی بہت کوریج مخصوص نوعیت کے ردعمل پر مبنی یا پھر واقعاتی ہوتی ہے، جس پر تجزیہ بہت کم ہوتا ہے یا بالکل کیا ہی نہیں جاتا۔ ’’یوں اقلیتوں کے مفادات اور ان کے حقوق کے حوالے سے سوچ محدود ہو جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
اس حوالے سے جمعرات اکیس فروری کو اسلام آباد میں ہوئی ایک تقریب میں شریک پاکستانی سینیٹ کے سابق رکن افراسیاب خٹک نے کہا، ’’پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی میڈیا میں ناکافی اور نامناسب نمائندگی کے معاملے کو ملک کے جمہوری اور آئینی سوال سے علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ مذہبی اقلیتیں جمہوریت کے ساتھ ہی مضبوط ہوں گی، اس کے بغیر نہیں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رومانہ بشیر نے، جو مذہبی اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے بہت سرگرم ہیں، اس ریسرچ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس ریسرچ کے نتائج حیران کن نہیں لیکن افسوس ناک ضرور ہیں کیونکہ وہ موجودہ حقائق کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
رومانہ بشیر نے مزید کہا، ’’مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں اور میڈیا کی لیڈر شپ کے درمیان اس بات پر مکالمہ ضروری ہے تاکہ اقلیتوں کے بارے میں دقیانوسی تصورات کا تدارک کیا جاسکے اور اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا جائے کہ عوام کے مفادات کا محافظ ہونے کے حوالے سے میڈیا اقلیتی برادریوں کے حقوق کا بھی تحفظ کر سکے۔‘‘
Published: undefined
اسلام آباد میں منعقدہ اس اجلاس میں دیگر شرکاء نے تجاویز پیش کیں کہ مذہبی اقلیتوں سے متعلق میڈیا کوریج میں معیار اور حجم کی بہتری کے چیلنج سے نمٹنے اور اس موضوع پر میڈیا میں پیشہ ورانہ رویوں کو فروغ دینے کے لیے ذرائع ابلاغ میں خبروں کے تنوع سے متعلق عوامی آگہی میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ میڈیا کی مذہبی تکثیرت اور مذہبی اقلیتوں کی حساس انداز میں کوریج کی تربیت بھی کی جانا چاہیے۔
Published: undefined
اس کے لیے مذہبی اقلیتوں اور میڈیا کے نمائندوں کے درمیان باقاعدہ باہمی روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جبکہ مذیبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں اور آن لائن میڈیا پر کام کرنے والے کارکنوں کی زیادہ بہتر پیشہ ورانہ تربیت بھی بہت مددگار ثابت ہو گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined