اس موضوع پر اسلام آباد سے اپنے ایک تجزیے میں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ پاکستان میں متعدد حلقوں کو اس بارے میں تشویش ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو مستقبل میں مزید فروغ مل سکتا ہے۔
Published: undefined
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی حکام زیادہ سے زیادہ اس سوچ کے قائل نظر آنے لگے ہیں کہ مذہبی سوچ کو تقویت دے کر ملکی عوام کو آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب لایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہو اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ کیونکہ یوں نا صرف سماجی عدم برداشت کو ہوا مل رہی ہے بلکہ طویل المدتی بنیادوں پر ملک میں عسکریت پسندی کے پنپنے کے لیے جگہ بھی بنتی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہو یہ رہا ہے کہ زیادہ بہتر سماجی اخلاقیات اور اعلیٰ انفرادی کردار کی عملی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے مذہب کے ذریعے پاکستانی عوام کو متحد کرنے کی ذہنیت ایسی سوچ کی ترویج کر رہی ہے، جیسے کوئی انسان بس کسی بند سرنگ میں ہی دور تک دیکھ رہا ہو۔
Published: undefined
اپنے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے عامر رانا کہتے ہیں، ''ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ اسی ٹنل وژن کی حوصلہ افزائی ہے۔ لیکن اس طرح کی سوچ تشدد، عدم برداشت اور نفرت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق، ''پاکستانی شہری ہونے کی تعریف اور اس کا مطلب اب یوں لیے جانے لگے ہیں کہ کون کتنا مذہبی ہے۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
نیوز ایجنسی اے پی نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیاں اب بڑھنے لگی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب چار ایسی ووکیشنل اسکول انسٹرکٹرز کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، جو خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں سرگرم تھیں۔ اس کے علاوہ بنیادی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والی اور گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ میں مقیم نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو بھی ٹوئٹر پر جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی۔
Published: undefined
مزید یہ کہ پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کے مختلف حملوں میں کم از کم ایک درجن کے قریبی فوجی اور نیم فوجی اہلکار بھی زیادہ تر ملک کے مغربی سرحدی علاقوں میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ سکیورٹی اہلکار یا تو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیوں میں شامل تھے یا پھر ان پر شدت پسندوں نے گھات لگا کر حملے کیے۔
Published: undefined
Published: undefined
پاکستانی فوج کے ترجمان نے اسی ہفتے کہا تھا کہ پرتشدد واقعات میں یہ اضافہ دراصل افغانستان کی ساتھ سرحد کے قریبی علاقوں میں عسکریت پسندوں اور شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی دستوں کے زیادہ جارحانہ آپریشن کا ردعمل ہے۔
Published: undefined
عامر رانا کے بقول پاکستان میں مذہبیت کا معاملہ مختلف پہلوؤں سے ایک منفی عملی اظہاریے کی وجہ بنا ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا، ''پاکستان میں مذہب اور مذہبیت کو باہمی برداشت کے مظہر عقائد سمیت مثبت رویوں کی ترویج کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔‘‘
Published: undefined
اس تناظر میں مرکز برائے بین الاقوامی سلامتی اور تعاون کے فیلو اور سکیورٹی تجزیہ کار اسفندیار میر کہتے ہیں، ''پاکستان میں ماضی میں مختلف ذیلی گروہوں اور دھڑوں میں منقسم عسکریت پسندوں کا خود کو متحد کرنا بھی ایک منفی پیش رفت ہے اور اس طرح تحریک طالبان پاکستان سمیت ایسے عسکریت پسند گروہ مزید خطرناک ہو جائیں گے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز