سماج

آسام میں مساجد، مدارس سے متعلق بی جے پی حکومت کی نئی پالیسی

آسام میں مساجد اور مدارس سے متعلق بی جے پی کی حکومت کی نئی پالیسیوں سے مسلمانوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اب غیر مقامی آئمہ اور مدارس کے اساتذہ کی حکومتی ویب سائٹ پر رجسٹریشن لازمی ہو گی۔

آسام میں مساجد، مدارس سے متعلق بی جے پی حکومت کی نئی پالیسی
آسام میں مساجد، مدارس سے متعلق بی جے پی حکومت کی نئی پالیسی 

بھارتی ریاست آسام میں بی جے پی کی حکومت نے مساجد کے آئمہ اور مدارس کے اساتذہ سے متعلق جو نئے احکامات جاری کیے ہیں، ان کے تحت ایسے تمام افراد کو، جن کا تعلق آسام سے نہ ہو، اب ریاستی حکومت کی ویب سائٹ پر خود کو لازماﹰ رجسٹر کرانا ہو گا۔

Published: undefined

ریاستی وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے اس حوالے سے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ حکومت جلد ہی اس کے لیے ایک الگ پورٹل قائم کرے گی اور باہر سے آنے والے ایسے تمام افراد کو وہاں اپنے بارے میں تفصیلات مہیا کرنا ہوں گی، جو ریاست میں قائم مساجد کے امام ہوں یا پھر کسی بھی اسلامی مدرسے میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے ہوں۔

Published: undefined

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں تیس فیصد سے بھی زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اس ریاست کی سرحد بنگلہ دیش سے بھی ملتی ہے۔ اس ریاست میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، جو پہلے بھی مسلم اداروں کے حوالے سے متنازعہ پالیسیوں کا اعلان کر چکی ہے۔

Published: undefined

وزیر اعلیٰ کیا کہتے ہیں؟

چند روز قبل ہی ریاستی پولیس نے ایک مدرسے سے تعلق رکھنے والے دو ایسے اساتذہ کو گرفتار کر کے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کا تعلق دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تھا۔ اس کے بعد ہی ریاستی وزیر اعلیٰ نے مساجد اور مدارس کے حوالے سے نئی پالیسیوں کا اعلان کیا۔

Published: undefined

ان کا کہنا تھا، ''گرفتار ہونے والوں میں سے ایک، جو ایک مسجد میں امامت کرتا تھا، سرغنہ تھا۔ اس نے کئی دیہات میں اس جہادی نیٹ ورک کو پھیلایا۔ چھ بنگلہ دیشی شہری اس جہادی نیٹ ورک کو پھیلانے کے لیے آسام میں داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے آسام پولیس نے ایک کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ باقی پانچ ابھی تک مفرور ہیں۔ آسام پولیس اپنی کارروائی جاری رکھے گی۔‘‘

Published: undefined

وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا، ''اس سلسلے میں ہم نے اب کچھ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز طے کیے ہیں۔ اب اگر کوئی نیا امام کسی گاؤں میں آتا ہے، تو اس کے لیے تصدیق کی خاطر مقامی پولیس کو مطلع کرنا لازمی ہو گا۔ پولیس کی طرف سے تصدیق کے بعد ہی ایسا کوئی فرد کسی مسجد میں امام کے فرائض انجام دے سکے گا۔ آسام کی مسلم آبادی اس بارے میں ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

Published: undefined

تاہم انہوں نے کہا کہ ان نئے ضوابط کا اطلاق آسام کے ریاستی رہائشی باشندوں پر نہیں ہو گا، ''آسام میں رہنے والوں کو اپنی تفصیلات درج کرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن جو لوگ ریاست سے باہر کے علاقوں سے آتے ہیں، انہیں اس پورٹل پر اپنی تفصیلات لازماﹰ درج کرانا ہوں گی۔‘‘

Published: undefined

نئی پالیسی کے تحت ریاست کے باہر سے آنے والے کسی بھی امام یا مدرسے کے کسی بھی استاد کو پہلے خود کو رجسٹر کرانا ہوگا اور پولیس کی طرف سے منظوری کے بعد وہ اپنے فرائض انجام دے سکیں گے۔ بصورت دیگر متعلقہ افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

Published: undefined

وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے حال ہی میں کہا تھا کہ آسام 'جہادی سرگرمیوں‘ کا گڑھ بن چکا ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیشی دہشت گرد گروہ انصار الاسلام سے تعلق رکھنے والے پانچ 'ماڈیولز‘ کا پردہ فاش کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

Published: undefined

بھارتی ميڈیا کے مطابق پولیس نے رواں برس مارچ سے اب تک 40 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے اور خاص طور پر زیریں اور وسطی آسام کے مسلم اکثریتی علاقوں کی سخت نگرانی جاری ہے۔

Published: undefined

دو روز قبل ہی آسام کے گولپارہ ضلع میں گرفتار کیے گئے دو علماء پر ریاست میں مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی پر اکسانے کا الزام عائد کیا گيا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں اس خطے میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے لیے کام کرتے تھے۔

Published: undefined

گزشتہ جون میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا سرما نے کہا تھا کہ اقلیتی فرقے (مسلمانوں) کو اپنی غربت اور دھرتی پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو کم کرنے کی خاطر فیملی پلاننگ کے مناسب طریقے اختیار کرنا چاہییں۔

Published: undefined

بی جے پی بالخصوص آسام میں مبینہ طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مسلمان تارکین وطن کے مسئلے کو ایک بڑے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور سکیورٹی مسئلے کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اکثر تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔

Published: undefined

مسلم سماجی اور سیاسی تنظیمیں ریاستی وزیر اعلیٰ کے مسلمانوں کے حوالے سے متنازعہ بیانات پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔ ان کے مطابق مساجد اور مدارس سے متعلق نئے ضوابط سے آسانیاں پیدا ہونے کے بجائے ریاست کے مسلمانوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined