سماج

پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی

پاکستان میں بہت تیزی سے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی جا رہی ہیں اور جنگلات کو بھی کاٹا جا رہا ہے۔ ماہرین اس رجحان کو ماحولیات اور زراعت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہیں۔

پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی
پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی 

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ڈی ایچ اے ملتان اور ڈی ایچ اے گوجرانوالہ کے حوالے سے کچھ صارفین نے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی آموں کے باغات اور زرعی زمینوں پر رہائشی منصوبے تیار کر رہی ہے۔

Published: undefined

پاکستان میں اس طرح کے الزامات بحریہ ٹاؤن اور دوسری ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ جنگلات کا عالمی معیار کل رقبے کا تقریباﹰ 25 سے 30 فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان میں یہ حصہ محض 5.4 فیصد ہے۔

Published: undefined

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی امور کے ماہر عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات عشروں میں لاہور کے اندر کئی رہائشی اسکیمیں جزوی یا مکمل طور پر زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ڈی ایچ اے، پیراگون ہاؤسنگ، پنجاب یونیورسٹی ہاؤسنگ کالونی اور رائیونڈ روڈ کے اطراف کئی ایسی رہائشی اسکیمیں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زرعی زمین پر تعمیر کی گئیں۔ شیخوپورہ میں شرقپور روڈ پر 20 کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر قائم ہیں اور لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان اب اسمارٹ سٹی کے حوالے سے بھی یہی دعویٰ کیا جارہا کہ وہ زرعی زمینوں پر ہیں۔‘‘

Published: undefined

فیصل آباد کو پاکستان کی صعنت کا مرکز کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں میں اس صنعتی شہر کے اطراف زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنائی جارہی ہیں۔ عرفان چوہدری کا دعویٰ ہے کہ فیصل آباد میں ستیانہ روڈ کے دونوں اطراف زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں مگر اب وہاں پر ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔

Published: undefined

پاکپتن سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر عمرحیات بھنڈرا کا کہنا ہے زرعی زمین پر رہائشی اسکیمیں بنانے کا منصوبہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بہاولنگر اور سرگودھا سمیت کئی شہروں میں تیزی سے چھوٹی چھوٹی رہائشی اسکیمیں زرعی زمین پر تعمیر کی جارہی ہیں۔‘‘ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بننے کا سلسلہ پنجاب میں زیادہ ہے لیکن یہ رجحان ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔

Published: undefined

سندھ آبادکار بورڈ کے سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ بہت سارے چھوٹے زمیندار اپنی زمین تعمیراتی شعبوں کے لوگوں کو دے رہے ہیں: ’’ٹنڈو اللہ یار، سکھر، جام شورو اور کراچی کے کئی زرعی علاقوں میں اب ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں۔ قانونی طور پر زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا آسان نہیں ہے لیکن پاکستان میں قوانین صرف بنائے جاتے ہیں، ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔‘‘

Published: undefined

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں شہر تیزی سے آباد ہو رہے ہیں اور ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق سن 2000ء میں دنیا میں شہری آبادی 2.6 ارب تھی، جو اب پانچ ارب سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً شہروں کے اطراف جو زرعی زمینیں تھیں وہ اب ریئل اسٹیٹ کی ڈویلپمنٹ کے لیے کام آ رہی ہیں۔

Published: undefined

روای ڈویلپمنٹ پراجیکٹ پر شدید تحفظات

لاہور میں حالیہ مہینوں میں راوی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ تنازعے کا شکار رہا، جو ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے۔ پراجیکٹ پر کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیمیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اعتبار سے یہ پراجیکٹ بڑے پیمانے پر تباہی لائے گا جبکہ زرعی ماہرین بھی اس پراجیکٹ کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔

Published: undefined

گزشتہ ماہ ہیومن رائٹس واچ نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے ایک بیان بھی جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ اس پراجیکٹ سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بہت بڑے پیمانے پر آئی ہے۔ عامر حیات بھنڈرا کا خیال ہے کہ حکومتوں کی طرف سے بار بار کی ایمنسٹی اسکیموں نے ریئل اسٹیٹ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے: ’’جو پاکستانی مزدور دوسرے ممالک میں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں، وہ سب سے پہلے کوشش کرتے ہیں کہ ریئل اسٹیٹ میں پیسہ لگایا جائے۔ اس کے علاوہ کالا دھن بھی اس میں لگائے جاتا ہے جو ایمنسٹی اسکیم کی وجہ سے ملک میں آتا ہے۔‘‘

Published: undefined

محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ زراعت میں بڑھتی ہوئی لاگت زمین داروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی زمینیں بیچیں۔ عرفان چودھری کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک رجحان ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر فوڈ ان سکیورٹی بڑھے گی: ’’یوکرین کے بحران نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر ممالک خوراک کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں تو ان کے لیے کسی بحران کی صورت میں بہت ساری مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined