مودی حکومت نے کہا کہ بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس محکمہ کی کارروائی چھاپے نہیں بلکہ "سروے" ہے اور یہ معمول کے مطابق ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس بی بی سی کی مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تفتیش کر رہا ہے۔ منگل کی صبح شروع ہونے والی کارروائی کل بدھ کو بھی جاری رہی۔
Published: undefined
بین الاقوامی اور ملکی میڈیا تنظیموں نے اس پر نکتہ چینی کی ہے ان کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس محکمہ کی کارروائی سے "خوفزدہ کرنے کی بوتی ہے" اور یہ اظہار رائے کی آزادی کی "توہین"کے مترادف ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے بھی بی بی سی پر انکم ٹیکس محکمے کی کارروائی پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
Published: undefined
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس'(سی پی جے)نے مودی حکومت سے صحافیوں کو پریشان نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔سی پی جے کی ایشیا پروگرام ڈائریکٹر بیہہ لی یی نے ایک بیان میں کہا،"وزیر اعظم مودی کی نکتہ چینی والے ڈاکیومنٹری کے بعد بی بی سی انڈیا کے دفاتر پر چھاپہ مارنے سے ڈرانے دھمکانے کی بو آتی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب بھارتی حکام تنقیدی خبریں شائع کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیکس جانچ کا سہارا لے رہے ہیں۔ زیادتی بند ہونی چاہئے۔"
Published: undefined
صحافیوں کی ایک دیگر بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز(آر ایس ایف)نے بھی ٹویٹ کرکے اس کارروائی کی نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے کہا کہ مودی پر دستاویزی فلم پر پابندی عائد کرنے کے بعد اب یہ کارروائی کی گئی ہے۔
Published: undefined
آر ایس ایف نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بھارت سرکار کی تنقید کو خاموش کرانے کی ان کوششوں کی مذمت کرتا ہے۔ خیال رہے کہ بی بی سی دفاترپر چھاپے کے دوران اس کے ملازمین کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی ضبط کرلیے گئے۔
Published: undefined
ایمنسٹی انٹرنیشل نے بھی ٹویٹ کرکے کہا، "یہ چھاپے اظہار رائے کی آزادی کی صریح توہین ہیں۔ بھارتی حکام واضح طورپر حکمراں بی جے پی کی نکتہ چینی والے کوریج پر بی بی سی کو پریشا ن کرنے اوردھمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ "
Published: undefined
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "محکمہ انکم ٹیکس کو حاصل وسیع اختیارات کا ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی ٹیکس حکام نے کئی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے، جن میں آکسفیم انڈیا سمیت دیگر این جی اوز شامل تھیں۔" خیال رہے کہ گزشتہ برس نیوزکلک، نیوز لانڈری، دینک بھاسکر اور بھارت سماچار جیسے بھارتی نیوز اداروں پر انکم ٹیکس نے "سروے"کے نام پر چھاپے مارے تھے۔
Published: undefined
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اس کارروائی سے واقف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،"ہم دنیا بھر میں آزاد پریس کی اہمیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم انسانی حقوق کی صورت میں اظہار رائے کی آزادی اور مذہب یا یقین کی آزادی کی اہمیت پر خصوصی توجہ دیتے رہیں گے، جو دنیا بھر میں جمہوریت کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس نے اس ملک میں بھی جمہوریت کو مضبوط کیا ہے اور اس نے بھارت کی جمہوریت کو بھی مضبوط کیا ہے۔"
Published: undefined
برطانیہ نے کہا کہ وہ بی بی سی پر چھاپے کی کارروائی پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے، حالانکہ اس نے ابھی تک باضابطہ سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
Published: undefined
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے کہا کہ وہ اس کارروائی کے سلسلے میں کافی فکر مند ہے۔ گلڈ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، "یہ حکومت کی پالیسیوں یا حکومتی اداروں کی نکتہ چینی کرنے والے اداروں کو ڈرانے اور پریشان کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کے استعمال کی روش کا ہی ایک حصہ ہے۔"
Published: undefined
پریس کلب آف انڈیا نے بھی بیان جاری کرکے اس کارروائی پر نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام سے بھارت کے امیج کو نقصان پہنچے گا۔ کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی بی بی سی کے خلاف چھاپے ماری کی نکتہ چینی کی ہے۔
Published: undefined
انسانی حقوق اور سماجی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں پریس کی آزادی کو نقصان پہنچا ہے۔ رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق سن 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں بھارت کی پوزیشن 10مقام نیچے گر کر 180ملکوں کی فہرست میں 150 پر پہنچ گئی ہے۔
Published: undefined
صحافیوں بالخصوص خاتون صحافیوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے اقدامات کی نکتہ چینی کرنے پر ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جاتی ہے حتی کہ ریپ اور قتل کرنے جیسی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز