کرناٹک ہائی کورٹ کے جج ایم ناگا پرسنّا نے ایک شخص کے خلاف اپنی بیوی کی طرف سے عائد کردہ ریپ کے الزامات کو مسترد کرنے سے انکار کردیا اورقانون سازوں سے ''خاموشی کی آوازوں‘‘ پر کان دھرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا،''ایک مرد ایک مرد ہے، ایک عمل ایک عمل ہے، ریپ ریپ ہے،خواہ یہ کام مرد کی شکلگ میں 'شوہر' ہی اپنی خاتون 'بیوی' کے ساتھ کیوں نہ کرے۔‘‘
Published: undefined
جسٹس ناگاپرسنّا کا کہنا تھا کہ ایک شخص صرف اس لیے ریپ کے مقدمے سے بچ نہیں سکتا کیوں کہ متاثرہ اس کی بیوی ہے۔ یہ مساوات کے حق کے خلاف ہے۔
Published: undefined
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک قدامت پسند خیال ہے کہ ''شوہر اپنی عورتوں کے مالک ہوتے ہیں، ان کے جسم، ذہن اور روح کے مالک ہوتے ہیں۔‘‘ اس رجعت پسند خیال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کے ساتھ ناانصافی کے معاملے میں سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور ممبران پارلیمان کو چاہیے کہ میریٹل ریپ کے حوالے سے جلد از جلد قانون سازی کریں۔
Published: undefined
عدالت نے یہ فیصلہ ایک 43 سالہ شخص کی طرف سے اپنے خلاف ریپ اور ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات سے بری کرنے کے لیے سن 2018 میں دائر کردہ درخواست پر سماعت کے دوران سنایا۔ مذکورہ شخص کی بیوی نے شادی کے گیارہ برس بعد بنگلور پولیس کے پاس مارچ 2017 ء میں شکایت درج کرائی تھی کہ اس کے شوہر نے اس کے ساتھ ریپ کیا اور اس کے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
Published: undefined
پولیس نے تفتیش کے بعد مذکورہ شخص کے خلاف ریپ، غیر فطری جنسی عمل، بیوی کے ساتھ تشدد اور جہیز کے لیے جنسی ہراسانی کے الزامات میں بھارتی تعزیرات کی مختلف دفعات کے تحت کیس درج کیا۔ نچلی عدالت میں اپنا کیس ہارنے کے بعد مذکورہ شخص نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اس نے اپنے خلاف الزامات کو چیلنج کرتے ہوئے دلیل دی کہ کسی بیوی کی طرف سے اپنے شوہر کے خلاف ریپ کے الزامات قابل قبول نہیں۔ ہائی کورٹ نے تاہم اس دلیل کو مسترد کردیا۔
Published: undefined
بھارت میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 375 کے تحت، جبری سیکس کو صرف اس صورت میں جرم سمجھا جاتا ہے جب بیوی کی عمر 18 سال سے کم ہو یعنی 18 سال کی عمر کے بعد کوئی بھی عورت جبری جنسی تعلقات قائم کیے جانے پر شکایت درج نہیں کر سکتی۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ سب عورت کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک پدر شاہی سوچ ہے جس کو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔
Published: undefined
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'آل انڈیا پروگریسیو وومنز ایسوسی ایشن‘ کی سکریٹری کویتا کرشنن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا بھارت میں جب کوئی عورت یہ کہتی ہے کہ اس کے شوہر نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے تو لوگ اسے جھوٹ قراردیتے ہیں اور متاثرہ خاتون پر ہی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے بھارت میں عورتوں کے ساتھ ریپ کے بڑے پیمانے پر واقعات کی رپورٹنگ نہیں ہوپاتی۔
Published: undefined
سینٹر فار سوشل ریسرچ انڈیا کی ڈائریکٹر ڈاکٹر رنجنا کماری کا کہنا ہے کہ،''پورے بھارت میں بیوی کے ساتھ ریپ کے واقعات بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں، بالخصوص چائلڈ میرج کے پس منظرمیں جہاں کم عمر بچیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں اور وہ اپنے ساتھ ہونے والی 'زیادتیوں‘ کو کسی کے سامنے بیان بھی نہیں کرپاتیں۔ ان کے مطابق یہ سب کچھ عورت کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک پدر شاہی سوچ ہے۔
Published: undefined
ایشیا کے بیشتر ممالک میں اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ بھارت بھی ان میں سے ایک ہے۔
Published: undefined
سن 2016 میں بھارت سرکار کی طرف سے پانچ ریاستوں میں کرائے گئے سروے کے مطابق چھ لاکھ سے زائد خواتین میں سے 30 فیصد نے بتایا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں۔ کرناٹک اور بہار میں یہ تعداد بالترتیب 44 اور 40 فیصد تھی۔
Published: undefined
تھامسن روئٹرز فاونڈیشن نے سن 2018 میں اپنے ایک سروے میں بھارت کو خواتین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔اس نے اس کے اہم اسباب میں سے ایک خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا بہت زیادہ خطرہ بتایا تھا۔
Published: undefined
کرناٹک ہائی کورٹ نے جس کیس کا فیصلہ سنایا ہے اسی طرح کا ایک کیس سن 2018 میں گجرات ہائی کورٹ میں بھی آیا تھا۔ اس کیس پر طویل جرح کے بعد ہائی کورٹ نے گوکہ شوہر کے خلاف ریپ کے الزامات کو منسوخ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ تاہم اسی کے ساتھ میرٹل ریپ کو قابل سزا جرم قرار دینے کی اشد ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ اس وقت دہلی ہائی کورٹ اور گجرات ہائی کورٹ دونوں ہی عدالتوں میں میریٹل ریپ کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined