سماج

ریپ جسمانی ہوس ہے یا طاقت کا اظہار؟‬

اگر ہم مشرقی معاشرے کی اعلی اقدار کا حوالہ دیتے ہیں تو ضروری ہو گا کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ مدینہ کی ریاست یہی ہے۔

ریپ جسمانی ہوس ہے یا طاقت کا اظہار؟‬
ریپ جسمانی ہوس ہے یا طاقت کا اظہار؟‬ 

انسانی فطرت بھی کچھ عجیب ہے۔ جب کوئی بھی مصیبت خود پر گزرے اسے بھرپور طریقے سے محسوس کرتا ہے۔ اس پر روتا ہے۔ گلہ کرتا ہے۔ لیکن اگر یہی تکلیف کسی اور پر گزرے تو یا تو اس معاملے کی نفی کی کوشش کرتا ہے یا پھر یوں نظر انداز کر دیتا ہے جیسے یہ محض ایک نمبر ہو۔ یعنی زندہ سلامت جیتے جاگتے انسانوں کی آہیں بھی ہندسوں سے بڑھ کر نہیں لگتیں۔ اسی لیے آئے دن سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی دل کو دہلا دینے والی خبر آتی ہے جس کے سوشل میڈیا ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں۔ چند ہی دن میں بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔

Published: undefined

آج کل چلنے والا سب سے اہم ٹرینڈ کشمور میں چار سالہ بچی کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے حوالے سے ہے۔ بچی کی ماں کراچی سے کشمور نوکری کی تلاش میں گئی اور وہاں جو کچھ ہوا اس پر انسانیت کا سر شرم سے جھکنا نہیں گرنا بنتا ہے۔ پہلے بچی کی ماں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں یہی غیر انسانی فعل اس کی چار سالہ بچی کے ساتھ چار لوگوں نے لگاتار کیا۔ مرکزی ملزم گرفتار ہو چکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ ہے؟ اگر نہیں، تو وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو ایسا عمل کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں ؟

Published: undefined

جب موٹروے پر خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی تو بہت سے لوگوں نے ان ہی کو دوش دیا کہ رات کو نکلی ہی کیوں۔ لیکن اگر ہم اس چار سالہ بچی علیشہ کو دیکھیں تو اس سلسلے میں کیا تاویل ہو گی؟ ایک کمسن بچی کیونکر چار آدمیوں کی ہوس کا نشانہ بنی؟ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات آخر ہے کیا؟

Published: undefined

اس سلسلے میں ہم نے ماہر نفسیات زہرا کمال سے رابطہ کیا جو پچھلے بیس سال سے بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ زہرا کمال کے بقول، ''اس عمل میں ہوس سے زیادہ طاقت اور اختیار کا اظہار اہم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی تعداد ان ہی پر مشتمل ہوتی ہے جو بچپن میں کسی جسمانی، نفسیاتی، یا جنسی تشدد کے عمل سے گزر چکے ہوں۔‘‘

Published: undefined

کراچی یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات کی پروفیسر ڈاکٹر انیلہ امبر ملک کا کہنا ہے کہ وہ بچے جو اس عمل کے بعد زندہ بچ جاتے ہیں ان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ شروع میں تو بار بار اسی لمحے کو جیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد شب بیداری اور ڈراؤنے خواب دیکھنے کے عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کے خوابوں کا تعلق بھی ان کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی سے ہی ہوتا ہے۔

Published: undefined

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچوں کی نفسیاتی نشوونما کے لیے وہ کیا اقدامات کیے جائیں جن سے ان کی ذہنی صحت بحال ہو سکے۔ زہرا کمال کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بچوں کا اعتماد بحال کرنا، ان سے گفتگو کرنا، اور ان کی پرائیویسی کا احترام کرنا بے حد ضروری ہے۔

Published: undefined

شاید آپ نے بھی نوٹ کیا ہو کہ کچھ عرصے سے یا تو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات بڑھ گئے ہیں یا ظاہر ہونے لگے ہیں۔ ممتاز سماجی کارکن ماروی سرمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس سلسلے میں ڈیٹا ہی اتنا کم ہے کہ اس بات کا پتہ لگانا خاصا ناممکن یے۔ ان کے نزدیک اس معاملے کے ساتھ جو شرم کا عنصر شامل ہو چکا ہے وہ لوگوں کو یہ واقعات رپورٹ کرنے سے روکنا ہے۔ خاص طور پر لڑکوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کو تو لڑکیوں سے بھی زیادہ چھپایا جاتا ہے۔

Published: undefined

سماجی کارکن نایاب گوہر جان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ان معاملات کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آنے کا موقع ملتا ہے حالانکہ یہ فرض ریاست کا ہے۔ صحافی صباحت زکریا کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کسی حد تک ان واقعات کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

Published: undefined

ماروی سرمد، نایاب گوہر جان اور صباحت زکریا نے اسی بات پر اتفاق کیا کہ ان معاملات کے سدباب کے لیے مزید قوانین کی نہیں بلکہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ صباحت زکریا کے بقول یہ امر اہم ہے کہ عورتوں کو خودمختار کیا جائے۔ ذہنی صحت کو نظرانداز نہیں کیا جائے۔ حکومت لوگوں کو سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ یہ مسائل رپورٹ کر پائیں۔

Published: undefined

یہیں ماروی سرمد نے یہ بھی کہا کہ پولیس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس جرم کی تفتیش کرنے والی افسران خواتین ہوں جنہیں اس کی خصوصی ٹریننگ دی جائے کہ ریپ کا شکار ہونے والوں سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔

Published: undefined

ماہر نفسیات اور اہم سماجی کارکنوں گفتگو کر کے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ریپ کا تعلق کسی کے لباس سے نہیں بلکہ ریپ کرنے والے کی سوچ سے ہے۔ جہاں طاقت کا اظہار کسی کو ایذاء دے کر کیا جائے اور الٹا زیادتی سے متاثرہ شخص پر ہی 'عزت لٹنے ' کا بوجھ ڈالا جائے وہاں ریپ کلچر کا پروان چڑھنا لازم ہے۔ اگر ہم مشرقی معاشرے کی اعلی اقدار کا حوالہ دیتے ہیں تو ضروری ہو گا کہ اپنے بچوں اور عورتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ مدینہ کی ریاست یہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined