جرمنی میں سیاہ فام افراد، سر پر اسکارف پہننے والی مسلم خواتین اور ایسے لوگ جو جرمن زبان اچھی طرح یا بالکل ہی نہیں بول پاتے ہیں، ان کے لیے توہین آمیز صورت حال یا توہین کے واقعات کاسامنا روزانہ کا معمول ہے۔ جرمنی میں تفریق آمیز سلوک کی بدنما شکلیں ہیں اور یہ پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔
Published: undefined
یہ بات جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (ڈی ای زیڈ آئی ایم) کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے رپورٹ میں سامنے آئی ہے، جسے روا ں ہفتے برلن میں پیش کیا گیا۔ یہ رپورٹ جون سے نومبر 2022کے درمیان 21 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ گوکہ سروے کے نتائج نہ تو پوری طرح نئے ہیں اور نہ ہی مکمل طور حیران کن لیکن اتنے ٹھوس انداز میں یہ شاید ہی پہلے پیش کیے گئے ہیں۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق جرمنی میں نصف سے زیادہ (54فیصد) سیاہ فام افراد کو کم از کم ایک بار نسل پرستی کا تجربہ ہوا ہے۔ اس گروپ میں سے تقریباً ہر پانچ میں سے ایک عورت کا کہنا تھا کہ انہیں سال میں کئی مرتبہ دھمکیاں دی جاتی ہیں یا ہراساں کیا جاتا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والی 14 فیصد مسلم خواتین اور 13فیصد ایشیائی خواتین نے بھی اسی طرح کے مسائل کا ذکر کیا۔
Published: undefined
جرمنی میں نسل پرستی کے خلاف مستقل نگرانی کا نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں ڈی ای زیڈ آئی ایم کی ڈائریکٹر نائیکہ فروتن کا کہنا تھا،" تعصب اور نسل پرستی کے بارہا ہونے والے تجربات کے اثرات صحت پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور ان سے ریاستی اداروں پر اعتماد کمزور ہونے لگتا ہے، جو جمہوریت کو کمزور کرسکتا اور خطرے میں ڈال سکتا ہے۔"
Published: undefined
اکتالیس فیصد سیاہ فام مردوں اور 39 فیصد مسلمان مردوں نے پولیس کے ساتھ معاملات میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنے کی بات کہی۔ انہیں عوامی دفاتر میں بھی نسل پرستی اور تفریق آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
Published: undefined
جب ہیلتھ کیئر کی بات آتی ہے تب بھی انہیں نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر سفید فام لوگوں کو ڈاکٹروں سے وقت لینے میں زیادہ دشواری ہوتی ہے اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کا امکان کم ہوتا ہے۔ سیاہ فام، مسلمان اور ایشیائی افراد کا کہنا تھا کہ علاج میں تاخیر یا ان کے ساتھ برا سلوک کیے جانے یا اکثر ڈاکٹرتبدیل کردیے جانے کے خوف سے انہوں نے علاج کرانے سے گریز کیا۔
Published: undefined
ڈی ای زیڈ آئی ایم کے شریک ڈائریکٹر فرینک کالٹر کا کہنا تھا،" ہمارے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ تفریق آمیز سلوک اور نسل پرستی کے تجربات کا بہت واضح تعلق بے چینی یا افسردگی جیسی بیماریوں کی علامتوں سے بھی ہے۔ سیاست دانوں اور معاشرے کے لیے ان کی سفارش ہے کہ سول سوسائٹی کی وہ تنظیمیں، جو جمہوری، آزادا ور پرامن سماج کے لیے کام کرتی ہیں، ان واقعات کی روک تھام اورمتاثر ہ افراد کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔
Published: undefined
وفاقی حکومت کی کمشنر برائے انٹیگریشن ریم البالی روڈووان نے خبر دار کیا کہ "رنگت یا کنیت (سرنیم) کو طبی نگہداشت کے معیار کا فیصلہ کن عنصر نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں، نرسنگ اسٹاف اور ہسپتالوں کو نسل پرستی کے خلاف تربیت دینے اور تصورات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے عملے کے حوالے سے بھی ایسے ہی مطالبات ایک عرصے سے کیے جارہے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined