1947ء کی تقسیم کا گھاؤ وقت کا مرہم بھی مندمل نہیں کر سکا۔ 75 برس گزر چکے مگر بالخصوص پنجاب کے لوگوں کے لیے جیسے وہ لمحہ تھم سا گیا ہے، جب ایک لکیر نے صدیوں پر محیط سانجھ داری ٹکڑوں میں تقسیم کر دی۔ نفسیاتی صدمے کا باعث بننے والی اس لکیر کو کھینچنے کی ذمہ داری پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سپرد تھی، جس کا فیصلہ سیاسی طور پر متنازعہ اور وسیع پیمانے پر قتل عام کے ایک سبب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
Published: undefined
8 جولائی 1947ء کو سر ریڈکلف نے باؤنڈری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے انڈیا میں قدم رکھا، جن کے پاس محض پانچ ہفتوں کا ٹائم تھا۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے لیے دو الگ الگ کمیشن تشکیل دیے گئے۔ پنجاب کے کمیشن میں مسلم لیگ کی طرف سے جسٹس (ر) دین محمد اور جسٹس محمد منیر جبکہ کانگریس کی جانب سے مسٹر مہرچند مہاجن اور مسٹر تیجا سنگھ نامزد رکن کے طور پر شامل تھے۔ کمیشن کا کام ”آبادی اور دیگر عوامل" کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔
Published: undefined
کیونکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے نامزد رکن تعداد میں برابر اور اپنے مؤقف میں غیر لچکدار تھے اس لیے تمام متنازعہ علاقوں کے معاملے میں ریڈ کلف کی رائے فیصلہ کن حیثیت رکھتی تھی۔ تقسیم کے تقریباً 24 برس بعد لندن میں ان کے فلیٹ پر بات چیت کے دوران بھارتی صحافی کلدیپ نیر نے ان سے پوچھا، ”آپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جس طرح سرحد کھینچی کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟" ریڈ کلف نے جواب دیتے ہوئے کہا، ”میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا، مجھے اتنا کم وقت دیا گیا جس میں میں اس سے بہتر کام نہیں کر سکتا تھا۔"
Published: undefined
ریڈ کلف کے متنازعہ ترین فیصلوں میں گورداسپور کی تقسیم اور اس کی تین تحصیلوں کو بھارت کے حوالے کرنا بھی شامل ہے جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ضلع گورداسپور چار تحصیلوں پر مشتمل تھا: شیرگڑھ، پٹھان کوٹ، گرداسپور اور بٹالہ۔ 51 فیصد سے بھی زائد مسلم آبادی والے اس ضلع کی پاکستان میں شمولیت اس قدر یقینی تھی کہ پاکستان نے 14 اگست کے دن مشتاق احمد چیمہ کو اپنا ڈپٹی کمشنر بھی تعینات کر دیا۔ مگر جب 17 اگست کو باؤنڈری کمیشن کا فیصلہ سامنے آیا تو محض ایک تحصیل شکر گڑھ پاکستان کو دی گئی تھی (جو اب نارووال کا حصہ ہے)۔ حالانکہ تحصیل گرداسپور اور بٹالہ میں بھی مسلمان اکثریت میں تھے۔
Published: undefined
پاکستان آج بھی اس موقف پر قائم ہے کہ ان تینوں تحصیلوں کی انڈیا میں شمولیت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ پر کی گئی تاکہ بھارت کو جموں و کشمیر تک کا راستہ مل سکے۔
Published: undefined
برطانوی مؤرخ Alex Von Tunzelmann اپنی کتاب انڈین سمر: دی سیکرٹ ہسٹری آف دی اینڈ آف این ایمپائر میں مختلف نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، ”فروری 1946 میں وائسرائے لارڈ ویول نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ تقسیم ہند کے دوران گورداسپور کو امرتسر کے ساتھ ہی رکھا جائے گا۔ اگر گورداسپور مسلمانوں کو دے دیا گیا تو امرتسر مشرق، مغرب اور شمال کی جانب سے پاکستان کے گھیرے میں آ جائے گا، جس سے سکھوں کی پوزیشن غیر مستحکم ہو جائے گی۔"
Published: undefined
اس اچانک اور غیر متوقع فیصلے سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد گورداسپور میں پھنس کر رہ گئی۔ بالخصوص اس کی ٹائمنگ انتہائی خوفناک تھی۔ دی پنجاب: بلڈیڈ، پارٹیشینڈ اینڈ کلینزڈ میں پروفیسر اشتیاق احمد افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”سب سے زیادہ غلط چیز اس کی ٹائمنگ تھی، اچانک لاکھوں افراد سرحد کی غلط جانب تھے۔ نوآبادیاتی حکومت جو امن و امان برقرار رکھ سکتی تھی وہ جا چکی تھی۔ دوسری طرف لکیر کی غلط سمت میں بیٹھے بے یار و مددگار لوگ ان جتھوں کا آسان ہدف تھے جو کئی ماہ سے تشدد کی تیاریاں کر رہے تھے۔"
Published: undefined
کلدیپ نیر اپنی کتاب سکوپ! اِن سائیڈ سٹوریز فرام پارٹیشن ٹو پریذنٹ میں ریڈ کلف سے اپنی ملاقات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے آگے چل کر لکھتے ہیں، ’’میں نے انہیں کہا کہ پاکستانی مسلمانوں کو شکایت ہے کہ آپ نے ہندوستان کا ساتھ دیا۔" ریڈ کلف کا جواب تھا ”انہیں میرا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ انہیں لاہور دینے کے لیے میں نے غیر معمولی قدم اٹھایا جو ویسے انڈیا کا بنتا تھا۔ اس طرح سے میں نے ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کا زیادہ ساتھ دیا۔" ریڈ کلف اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”مجھے خیال آیا کہ پاکستان کے پاس کوئی بڑا شہر ہی نہیں ہو گا کیونکہ کلکتہ پہلے ہی انڈیا کو دے چکا تھا۔"
Published: undefined
لاہور آبادی کے اعتبار سے واضح مسلم اکثریتی علاقہ تھا۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق 60.5 فیصد مسلمان جبکہ ہندو، سکھ اور عیسائی کل ملا کر 35 فیصد بنتے تھے۔ لیکن تقسیم کے فارمولے میں آبادی کے علاوہ ”دیگر عوامل " کا بھی ذکر ہے، جس میں کاروبار پر کنٹرول اور زمین کی ملکیت خاصی اہمیت کے حامل تھے۔ ہندو اور سکھ لاہور کے تقریباً 80 فیصد کاروبار کے مالک تھے۔
Published: undefined
پاکستانی مؤرخ پروفیسر اشتیاق احمد کے مضمون دی بیٹل فار لاہور اینڈ امرتسر کے مطابق، ”اکثریتی مسلم آبادی کے واضح اعداد و شمار کے باوجود بہت سے سکھ اور ہندو یقین رکھتے تھے کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ ان میں بڑے پیمانے پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ جو مرضی ہو جائے لاہور انہی کا رہے گا۔"
Published: undefined
پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے جب سکھوں کے وکیل ہرنام سنگھ نے خود کو پنجاب کے اصل وارث ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کیے تو چند شہروں کا نام لے کر ذکر کیا جن میں گورداسپور اور لاہور دونوں شامل تھے۔
Published: undefined
لاہور کی پاکستان میں شمولیت کا ردعمل ہرگز معمولی نہیں تھا۔ پروفیسر اشتیاق احمد کے مطابق، ”سکھ تیاریاں کر رہے تھے کہ اگر ننکانہ صاحب اور لاہور، جو دونوں ان کے لیے مقدس ہیں، انڈیا کو نہ دیے گئے تو وہ بدلہ لینے کے لیے حملے کریں گے۔" جب ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں تو مسلمانوں کو بالخصوص امرتسر میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
Published: undefined
لاہور صدیوں سے سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز اور برصغیر کی ثقافتی سرگرمیوں کی جان رہا ہے۔ تقسیم کے فوراً بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری نے اسی شہر سے اپنی بنیاد اٹھائی۔ شعر و ادب کی آبیاری میں اس شہر کی کنٹری بیوشن کا کوئی جواب نہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں اٹھنے والے تمام بڑی سیاسی تحریکوں کا مرکز بھی یہی شہر رہا۔ ایسے غیر معمولی شہر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے کیا پاکستانیوں کوریڈ کلف کے ممنون ہونا چاہیے؟ مگر اتنی بڑی تعداد میں قتل عام کا ذمہ دار کون ہے؟
Published: undefined
ریڈ کلف نے اپنی زندگی میں تمام دستاویزات جلا ڈالے تھے اور خود کوئی کتاب بھی تحریر نہیں کی۔ البتہ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ اتنے کم وقت میں اس سے بہتر فیصلہ ممکن نہیں تھا۔ ریڈ کلف نہ یہاں کے کلچر سے واقف تھے نہ جغرافیائی خطوط کو سمجھتے تھے۔ مگر نوآبادیاتی حکمران اور ہماری اشرافیہ سے یہ سب چیزیں تو ڈھکی چھپی نہ تھیں۔ مذہبی منافرت اور سیاسی مخاصمت تقسیم سے پہلے عروج پر تھی مگر کسی نے عوام کو خون کی ہولی سے بچانے کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined