جہاں یورپ کی اس مہمان نوازی کی تعریف کی جا رہی ہے، وہاں کئی یورپی ممالک کے اس مختلف رویے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، جو انہوں نے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور خاص طور پر شامی مہاجرین کے حوالے سے اپنایا تھا۔
Published: undefined
صرف یہی نہیں بعض یورپی رہنماؤں کے بیانات بھی شدید تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والے ہیں۔ جیسے کہ بلغاریہ کے صدر رومین رادیو کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ وہ مہاجرین نہیں ہیں، جن کے ہم عادی ہیں۔ یہ لوگ یورپی ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا، ''یہ ذہین اور تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ یہ ویسے مہاجرین نہیں ہیں، جن کے ہم عادی ہیں، جن کی شناخت کے بارے میں ہمیں علم نہیں، جن کے ماضی کا ہمیں علم نہیں، جو دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
ان کا مزید کہنا تھا، ''دوسرے لفظوں میں کوئی ایک بھی یورپی ملک ایسا نہیں ہے، جو مہاجرین کی اس لہر سے خوفزدہ ہو۔‘‘ شامی صحافی عقبہ محمد کا کہنا ہے کہ یہ بیان، ''نسل پرستی اور اسلاموفوبیا پر مشتمل ہے۔‘‘ یہ شامی صحافی سن دو ہزار اٹھارہ میں بطور مہاجر یورپ آیا تھا اور اب اسپین میں مقیم ہے۔ اسپین میں ایک میگزین کے مدیر اس صحافی کا کہنا تھا، ''ایک پناہ گزین ایک پناہ گزین ہوتا ہے، چاہے وہ یورپی ہو، افریقی یا پھر ایشیائی۔‘‘
Published: undefined
اگر بات یوکرائن کے مہاجرین کی ہو تو بہت سے یورپی رہنماؤں کا رویہ بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان میں وہ رہنما بھی شامل ہیں، جو مہاجرین کے حوالے سے انتہائی سخت رائے رکھتے ہیں۔ تین ماہ پہلے ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کا مشرق وسطیٰ اور افریقی مہاجرین کے حوالے سے کہنا تھا، ''ہم کسی ایک کو بھی داخل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ رواں ہفتے یوکرائن کے لوگوں سے مخاطب ہو کر انہوں نے کہا، ''ہم سب کو داخل ہونے دیں گے۔‘‘
Published: undefined
صرف یہ نہیں بلکہ صحافیوں کے رویے بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی وژن کے ایک میزبان نے بھی کہا کہ یہ خوشحال اور مڈل کلاس لوگ ہیں اور افریقی یا پھر عرب مہاجرین کی طرح نہیں ہیں، ''یہ کسی یورپی خاندان ہی کی طرح لگتے ہیں، جو آپ کے پڑوس میں رہ رہے ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم اس چینل نے اس غیرمناسب تبصرے پر معافی مانگی ہے۔
Published: undefined
تاہم سن دو ہزار پندرہ میں رضاکار یونانی جزیروں پر بھی پہنچے تھے تاکہ مہاجرین کا استقبال کیا جا سکے۔ اسی طرح جرمنی کے ریلوے اور بس اسٹیشنوں پر تالیاں بجا کر شامی مہاجرین کا استقبال بھی کیا گیا تھا۔ لیکن یہ والہانہ استقبال اس وقت ماند پڑ گیا تھا، جب یورپی یونین کے متعدد ممالک نے مہاجرین کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت سب سے زیادہ مخالفت ہنگری اور پولینڈ جیسے وسطی اور مشرقی یورپی ممالک نے کی تھی۔ پھر ایک ایک کر کے متعدد یورپی ممالک نے سیاسی پناہ کے طریقہ کار اور پالیسیوں کو سخت بنانے کا عمل شروع کردیا۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر میں پالیسی سازی کے سابق سربراہ جیف کریسپ کا کہنا تھا، ''نسل اور مذہب نے مہاجرین کے ساتھ رویے کو اثرانداز کیا ہے، بہت سے لوگوں کی طرح یہ اوربان کا دوہرا معیار ہے۔‘‘
Published: undefined
تاہم یوکرائن کے یورپ کے ساتھ ثقافتی اور تاریخی روابط بھی رہے ہیں۔ جیف کریسپ کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یورپی لوگوں کی ہمدردی فطری ہے کہ زبان اور ثقافت وغیرہ ملتی جلتی ہیں۔ پہلے ہی لاکھوں یوکرائنی باشندے یورپی یونین میں ضم ہو چکے ہیں اور مختلف ممالک میں رہتے ہیں۔
Published: undefined
دوسری جانب ایسی رپورٹوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ روسی حملوں کی وجہ سے یوکرائن سے فرار ہونے والے دیگر رنگ و نسل کے افراد کو امتیازی سلوک اور رویے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوکرائنی مہاجرین کو تو سرحد عبور کرنے کی اجازت فراہم کی جا رہی ہے لیکن نائجیریا، بھارت اور لبنان وغیرہ کے مہاجرین پولینڈ کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افریقی طالب علموں کو یوکرائن سے باہر نکلنے کے لیے ٹرین پر سوار ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ پولینڈ کی سرحد پر ایک بھارتی طالب علم کو روک کر کہا گیا کہ وہ رومانیہ جائے اور اس کو تین دن پیدل سفر کر کے رومانیہ کی سرحد پر جانا پڑا۔
Published: undefined
اسی طرح بھارتی طالب علموں کا ایک دوسرا گروپ، جو پولینڈ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا لیکن انہیں شیلٹر فراہم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ امداد یوکرائنی شہریوں کے لیے ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز