میں نے یہ بات سنی تو اس کو سمجھایا کہ رونا نہ تو کمزوری ہے، ناں ہی مردانگی پہ کوئی دھبہ اور کیا مرد عورت کی طرح انسان نہیں ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا؟ اس نے جواباً کہا، ’’آپی! اگر یہ ایسے روئے گا تو سب لڑکے اس کا مذاق بنائیں گے۔‘‘
Published: undefined
میں نے اسے تو یہ بات سمجھا دی کہ رونا کوئی بری بات نہیں مگر پھر اس بارے میں سوچتی رہی کہ ہم اپنے بچوں کی پرورش کن اصولوں پر کرتے ہیں اور جانے انجانے میں ان کی شخصیت پر کیسے اثرات چھوڑ جاتے ہیں؟
Published: undefined
مرد اور عورت کی اس تفریق کے ذمہ دار تو دراصل ہم خود ہیں، جو کم عمری ہی سے مرد اور عورت کے لیے الگ الگ سانچے مقرر کر دیتے ہیں اور سب کو انہی کے مطابق ڈھالنے کی تگ و دو میں بھی لگ جاتے ہیں۔ اگر جو دونوں میں سے کوئی بھی ذرا سا اس سانچے سے ہٹا تو وہ ہمارے لیے نا قابل قبول ہو گیا۔
Published: undefined
میں نے اپنی پچیس سالہ زندگی میں اپنے گھر کے مردوں کو ایک دو مرتبہ کے علاوہ کبھی روتے نہیں دیکھا، جن میں سے ایک مرتبہ میں نے اپنے چچا کی نا گہانی موت پر اپنے والد کی آنکھوں میں پہلی مرتبہ آنسو دیکھے۔ بعض اوقات وہ اپنی والدہ یعنی ہماری دادی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے لیکن میں نے اپنی زندگی میں زیادہ تر مردوں کو انتہائی نامناسب حالات میں بھی کبھی زار و قطار روتے یا بلکتے نہیں دیکھا۔
Published: undefined
مرد کو ہم اسی طرح کا سخت جان مرد دیکھنے کے قائل ہیں، جو اپنے جذبات کو حتیٰ الامکان دبانے کی کوشش کرے۔ اگر نہ دبا سکے تو بے وجہ غصے کے ذریعے اظہار کرے مگر کبھی روئے نہیں ورنہ اس کو نا مرد سمجھا جائے گا۔ یہ معاشرہ، جہاں عورت کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتا ہے اور اسے کمزور دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے، وہیں مرد کو خواہ مخواہ رعب دار دکھانے والا اور دھونس جمانے والا ہی دیکھنا چاہتا ہے اور اگر کوئی مرد غلطی سے ان معیارات پر پورا نہ اُترے تو اسے عورت اور ہیجڑہ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
Published: undefined
ہمارے ہاں مرد اس لیے بھی بلا وجہ غصے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے دیگر جذبات کے اظہار کی آزادی نہیں ہوتی۔ زیادہ خوشی اور اداسی دونوں ہی کا اظہار بچگانہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ان کے اندر جذبات کا ایک فطری توازن برقرار نہیں رہ پاتا اور وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
Published: undefined
پدر شاہی نظام، جہاں عورت کے لیے استحصال کا باعث ہے، وہیں مرد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اظہار ہی نہیں کر پاتے، چاہے وہ بچپن میں لڑکوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی ہو یا بڑی عمر میں ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی۔ لڑکے اپنے ساتھ ہونے والی جسمانی زیادتی کے بارے میں گھر والوں کو اس لیے نہیں بتا پاتے کہ ان کو کمزور نہ سمجھا جائے اور پھر یہ مسائل بڑے ہو کر بیشتر نفسیاتی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔
Published: undefined
مردوں میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا کوئی آؤٹ لیٹ نہیں ہے۔ خواتین رو کر اپنے دکھ کا اظہار کر لیتی ہیں مگر مردوں میں یہ بچپن سے ہی دبائے ہوئے جذبات بہت سے ذہنی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
Published: undefined
عمومی طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شروع ہی سے بچے کی پرورش "جینڈر رولز" کے مطابق کی جاتی ہے، جس میں مردانگی اور زنانگی کے کچھ معاشرتی اصول مقرر کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ بحیثیت مرد یا عورت ہمارا فطری طور پر اتنا فرق نہیں ہے بلکہ معاشرتی طور پر ہمیں سو شلائز ہی ایسے کیا جاتا ہے کہ ہم کچھ رویوں کو زنانگی جبکہ کچھ اور رویوں کو مردانگی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جو بعد میں خود ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
Published: undefined
جیسے کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد ہی لڑکا اور لڑکی کا فرق واضح کرنے کے لیے لڑکے کو گہرے رنگوں جیسے نیلے اور کالے رنگ کے کپڑے پہنائے جاتے ہیں جبکہ لڑکی کو شوخ رنگ کے جیسے گلابی یا سرخ وغیرہ۔ بچے جوں جوں بڑے ہوتے ہیں تو ان کے رویوں میں بھی واضح فرق دیکھنے میں آتا ہے۔
Published: undefined
لڑکوں کو زیادہ تر باہر کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کو گھر داری اور امور خانہ داری میں دلچسپی لینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو عام طور پر نازک مزاج اور جذباتی سمجھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو صنف نازک کے سانچے میں ڈھالا جائے جبکہ لڑکوں کو سخت جان اور مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روایتی طور پر ہمارے گھروں میں مائیں، بہنیں، خالہ اور پھو پھیاں وغیرہ لڑکے کو "شیر پتر"جیسے ناموں سے پکارتی ہیں تاکہ وہ بہادر اور مضبوط بنیں اور اگر بچہ روئے تو یہ کہہ کر چپ کرایا جاتا ہے کہ "بیٹا! مرد روتے نہیں ہیں!" یوں یہ لڑکے بچپن سے ہی رف اینڈ ٹف بن جاتے ہیں اور اپنے مسئلے زیادہ تر خود تک محدود رکھتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی بجائے ان کو دبانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے جذبات اندر ہی اندر جمع ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو کتنی دیر تک دبایا جا سکتا ہے، آخر یہ جذبات منفی رویوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، جن میں بے جا غصہ، تشدد، جارحیت اور نشے کی عادت عام ہے۔
Published: undefined
ان متشدد رویوں کا نقصان نہ صرف گھر کی عورتوں کو پہنچتا ہے بلکہ خود مردوں کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مردوں میں یہ رویے نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔
مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر گبور ماتے نے اپنی کتاب 'When the Body Says No' میں ان بیماریوں کی نفسیاتی اور معاشرتی وجوہات پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے مطابق ہمارا جسم ہمارے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں اور منفی رویوں کو رجسٹر کرتا ہے اور پھر ان کا اثر ہمارے ذہن کے ساتھ ساتھ جسم میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔ اس لیے جذبات کا اظہار نہ ہونے کے باعث ہم بہت سی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ڈپریشن، اینزائٹی جیسے نفسیاتی مسائل کے ساتھ آٹو ایمیون بیماریوں کا رحجان بہت زیادہ ہے۔
Published: undefined
مرد اپنے ذہنی مسائل پر بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں انہیں کمزور نہ سمجھ لیا جائے اور اسی وجہ سے ان کے ذہنی مسائل خواتین کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ وہ جسمانی بیماریوں کے لیے بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیلف میڈیکیشن کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی میں ان کو جس بھی طرح کے گھریلو، معاشی یا معاشرتی مسائل کا سا منا ہو، وہ دوسروں سے مدد لینے کو عیب سمجھتے ہیں اور یوں اپنے اندر ہی اندر ان سے لڑتے رہتے ہیں۔
Published: undefined
"یہ جینڈر رولز" مرد اور عورت دونوں کے لیے کچھ خاص فائدہ مند نہیں۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جہاں عورت اور مرد دونوں ہی کماتے ہیں اور مل جل کر گھر کے اندر اور باہر کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں، وہاں ہم جیسے پسماندہ معاشروں کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مالی اخراجات کی تمام ذمہ داری صرف مرد پر نہ ہو اور اگر وہ انہیں پورا نہ کر پائے تو اسے کم تر سمجھا جائے اور اس کی مردانگی پر سوال اٹھایا جائے۔ اسی طرح اگر وہ گھر میں بیوی کے ساتھ بچوں کی پرورش میں اور گھر کے دیگر کاموں میں مدد کرے تو اسے نا مرد یا زن مرید کہنے کی بجائے اس بات پر خوشی منائی جانی چاہیے۔
Published: undefined
نائجیریا کی مشہور مصنفہ چیمامندہ نگوذی آدیچے کہتی ہیں، ’’جینڈر رولز یا صنفی کرداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری ذات کی پہچان کرنے میں مدد دینے کی بجائے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ معاشرے کے مطابق ہمیں کیسا ہونا چاہیے۔‘‘ اس لیے ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو معاشرے کے مطابق ڈھالنے کی بجائے ان کی اپنی شخصیت کو پروان چڑھائیں تاکہ وہ مرد یا عورت بننے کی بجائے ایک بہتر انسان بن کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔
Published: undefined
یہ جینڈر رولز چونکہ معاشرے کے تخلیق کردہ ہیں لہذا انسانی معاشرے کی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان میں بھی واضح فرق آیا ہے۔ پہلے پہل شوخ اور گلابی رنگوں کا استعمال مرد کے لیے کیا جاتا تھا، پھر بعد ازاں اسے صرف خواتین تک محدود کر دیا گیا۔
Published: undefined
اس طرح مرد اور عورت کے معاشرتی رویوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ تر جینڈر رولز معاشرے کی ضرورت کے مطابق بنائے جاتے تھے جیسے کہ ایشیائی اور یورپین معاشروں کے برعکس کئی افریقی قبائل میں حکمران اور رہنما عورتیں ہوا کرتی تھیں اور تمام ضروری اور اہم امور ان کو سونپے جاتے تھے۔
Published: undefined
میں معاشرے کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ مرد کو ظالم اور سفاک بنانے میں بہت زیادہ کردار سوشلائزیشن کا ہے اور جب تک ہمارے معاشرے سے پدرسری رویوں کا خاتمہ نہیں ہو گا، ان مسائل کا تدارک نا ممکن ہے۔ جذبات اور ان کا اظہار انسانی وجود کے لیے ضروری ہے اور ان سے انکار بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔
(نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined