سماج

عورتیں خواجہ سرا سے محبت کیوں نہیں کرتیں؟

کئی بار سوشل میڈیا پر ایک سوال نظر سے گزرا کہ اگر محبت ’پاکیزہ جذبہ‘ ہے اور جسم اس میں شامل نہیں ہوتا تو کسی عورت کو کسی خواجہ سرا سے محبت کیوں نہیں ہو جاتی؟

عورتیں خواجہ سرا سے محبت کیوں نہیں کرتیں؟
عورتیں خواجہ سرا سے محبت کیوں نہیں کرتیں؟ 

اب اس سوال کا جواب دینے پر آئیں تو سیدھا سا جواب، جو خود سوال کی صورت ہی رکھتا ہے، پوچھنا پڑتا ہے کہ عورت کو عورت سے تو ہو جاتی ہےو مرد کو مرد سے ہو جاتی ہے اور بہت سے لوگ اس محبت کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔ تو میری نظر میں بس بات قبولیت کی ہے کہ قبولیت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

Published: undefined

محبت جسم کے بغیر نہیں ہو سکتی لیکن آپ سماجی قاعدوں کے حساب سے مانتے کس والی محبت کو ہیں؟ یہاں تو مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے ہو تو وہ بھی چھپا کر رکھنا پڑتی ہے، بھلے ان دونوں میں سگے میاں بیوی والا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں لوگوں کے سامنے بہن بھائی سے بھی زیادہ پاکیزہ بن کے رہنے کی اداکاری کرنا پڑتی ہے۔

Published: undefined

یقین جانیے کہ سارا بچپن ہم یہ ہی سمجھتے رہے کہ اگر اماں جی ابو جی سے ہنس کے بات کر لیتی ہیں تو وہ بہت ہی غلط خاتون ہیں۔ اور ابا جی اگر کبھی اماں جی کا ہاتھ غلطی سے بھی پکڑ لیتے ہیں تو ابا جی کوئی ''اوباش آدمی‘‘ ہیں البتہ اماں اپنے بھائی بلکہ منہ بولے بھائی کے گلے مل سکتی ہیں اور ابا بھی کزن سسٹر کو جپھی ڈال کر مل سکتے تھے، یہ بہت جائز اور بر محل معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اماں ابا آپس میں کیوں، کیسے، خوامخواہ ؟ یہ تو رہے ہمیشہ سے ہمارے سماجی قبولیت کے معیارات۔

Published: undefined

اب ذرا اس قبولیت اور معاملات کو سمجھیے کہ جہاں بظاہر بہت ''فطری تعلق‘‘ کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہو، وہاں ان کے مطابق ''غیر فطری تعلقات‘‘ کا کیا حشر ہوتا ہو گا؟ آپ کسی خواجہ سرا سے محبت کرتے بھی ہوں تو اس کا اظہار کیسے کریں گے؟ اگر اس کا اظہار کر بھی دیں گے تو زمانے بھر کی لعنتوں، ملامتوں، فتووں اور شرمندگی سے کب تک لڑیں گے؟ ہم تو وہ ہیں، جن سے خواجہ سراؤں کے حقوق کا بل برداشت نہیں ہوا اور ہم نے اسے ہم جنس پرستی کو قبول کروانے کا شاخسانہ سمجھ لیا۔

Published: undefined

خود مجھے خواجہ سرا دوست ہونے پر طنز کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ آپ تو ہماری دوستیوں کو بھی ماننے کو تیار نہیں۔ ابھی آپ عورت کو مکمل انسان مانتے ہوئے ڈرتے ہیں، کجا عورت اور خواجہ سرا کی نجی پسند نا پسند کو مانیں۔ آپ جی بھر کے برا بھلا کہیں گے مجھے کہہ لیجیے لیکن صرف اتنا بتا دیں کہ آپ جسے ''معیاری محبت‘‘ کہتے ہیں وہ دراصل کون کس سے کر رہا ہے؟ یہاں کون خود غرض نہیں ہے، یہاں جسم و روح کا سکون کسے درکار نہیں ہے؟

Published: undefined

آپ مرد ہیں، آپ کسی خواجہ سرا یا کسی ایسی عورت سے کتنی دیر محبت کر سکتے ہیں، جو آپ کو دستیاب نہ ہو، جس سے آپ جسم کا سکون طلب نہ کرتے ہوں؟ کیا آپ پاکیزہ محبت کے روادار ہیں؟ آپ عورتوں کا مذاق تو اڑاتے ہیں کہ وہ ''پاکیزہ محبت‘‘ کا راگ الاپتی ہیں لیکن کسی نامرد خواجہ سرا یا کمزور شخص سے محبت کیوں نہیں کرتیں؟

Published: undefined

آپ کا مذاق اڑانا بنتا ہے بھئی، اس لیے کہ عام عورت ابھی بھی قصوں کہانیوں میں بیان کیے جانے والے جذبات کو اصلی اور قابل عمل سمجھ کر بعض اوقات اپنے سے ہر طرح کم سطح کے آدمی کے ساتھ عمر گزار دیتی ہے۔ کبھی آپ اسے روایات کے نام پر باندھ لیتے ہیں تو کبھی جذبات کے نام پر اور ذرا ایمانداری سے بتایے گا کہ یہ ''پاکیزہ محبت‘‘ والی پخ بھی آپ کی اڑائی ہوئی نہیں ہے کیا؟

Published: undefined

کیا آپ کو یہ خوف کبھی نہیں رہا کہ آپ کے گھر کی عورت اپنے منہ زور جذبات کے ہاتھوں آپ کو زمانے میں رسوا نہ کر دے اور کہیں آپ کی مردانگی کی اصل کا پول نہ کھول دے؟اب آپ کہیں گے کہ سب مرد ایسے نہیں ہوتے تو میں کہوں گی کہ شکر ہے کہ سب ایسے نہیں ہوتے، ننانوے اعشاریہ ننانوے فی صد کے بعد، جو شرح بچ جاتی ہے، وہ واقعی ایسے نہیں ہوتے۔

Published: undefined

لیکن بات آپ کی درست ہے کہ ''پاکیزہ محبت‘‘ کوئی نہیں ہوتی، جہاں جنسی فعل کو ''گندا کام‘‘ سمجھ کے کیا جائے اور گالیوں میں اس عمل کو ایسے پیش کیا جائے کہ جیسے مفعول ہونا کسی بھی جنس اور نسل کے لیے جرم ہو، وہاں اس جذبے کو پاکیزگی سے جوڑنا چہ معنی دارد۔ کیونکہ آپ طاقتور ہیں تو عورتیں، بچے، خواجہ سرا اور تو اور جانور بھی آپ کے حرم میں شامل ہیں۔

Published: undefined

محبت کے اظہار اور اس کے عملی اظہار کا حق بھی آپ کو ہی حاصل ہےکہ عورتیں خواجہ سراؤں سے محبت کر بھی لیں گی تو قبول کون کرے گا؟

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined