امسالہ فرینکفرٹ بک فیئر کا افتتاح بدھ 18 اکتوبر کو ہو رہا ہے۔ اس میں تقریباً چھ ہزار میڈیا نمائندوں کی شرکت کا بندوبست کیا گیا ہے تاہم اسرائیل اور حماس کے مابین جاری خونریزی دنیا کے اس سب سے بڑے اشاعتی تجارتی ایونٹ کو متاثر کر رہی ہے۔
Published: undefined
گزشتہ جمعے کو ہی مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال کے اس کتب میلے پر اثرات اس وقت محسوس کر لیے گئے تھے، جب جرمن ایوارڈ LiBeraturpreis کے منتظمین کی طرف سے فلسطینی مصنفہ عدنیہ شبلی کے لیے اس ایوارڈ کی تقریب ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس فلسطینی مصنفہ کا تعلق گلوبل ساؤتھ گروپ سے ہے۔ انہیں اس جرمن ایوارڈ سے نوازنے کے فیصلے کے ساتھ ہی اعلان کیا گیا تھا کہ تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد فرینکفرٹ بک فیئر کے موقع پر کیا جائے گا۔
Published: undefined
ایک بیان میں فرینکفرٹ بک فیئر کے ڈائریکٹر ژُرگن بوس نے باضابطہ طور پر حماس کے ''وحشیانہ‘‘ حملے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اس واقعے کے تناظر میں ''اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘ ژُرگن بوس نے یہ بھی کہا کہ وہ امسالہ عالمی کتاب میلے میں اسرائیل کی آواز کو مزید بلند کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ فرینکفرٹ بک فیئر کے ڈائریکٹر کے ان بیانات کے جواب میں مسلم اکثریتی ممالک کی متعدد اشاعتی تنظیمیں اس میلے میں شرکت سے دستبردار ہو گئیں۔
Published: undefined
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس بار فرینکفرٹ کتاب میلے میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرنے والوں میں سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست انڈونیشیا کی پبلشرز ایسوسی ایشن، متحدہ عرب امارات کی شارجہ بک اتھارٹی، امارات پبلشرز ایسوسی ایشن اور مصر میں عرب پبلشرز ایسوسی ایشن شامل ہیں۔
Published: undefined
انڈونیشیا کی پبلشرز ایسوسی ایشن نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں لکھا ہے، ''اسرائیل کا ساتھ دینے اور اس کے لیے آواز اٹھانے کے لیے یہ پلیٹ فارم فراہم کرنے سے مشرق وسطیٰ میں امن اور باہمی افہام و تفہیم پیدا کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
اس پبلشرز ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن آریس ہلمن نوگراہا نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''فلسطینی عوام کے دکھوں کو فراموش کرتے ہوئے اسرائیل کا ساتھ دینا ایسا ہی ہے، جیسے کہ آپ بس ایک کتاب پڑھ کر یہ کہنے لگیں کہ آپ کو پوری دنیا کا علم سمجھ میں آ گیا ہے۔‘‘ ملائشیا کی وزارت تعلیم نے بھی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ رواں برس فرینکفرٹ کتب میلے سے علیحدگی اختیار کر رہی ہے۔
Published: undefined
دریں اثناء فرینکفرٹ بک فیئر کی انتظامیہ کے ڈائریکٹر ژُرگن بوس نے مسلم ممالک کے پبلشرز کی طرف سے شرکت سے دستبرداری کے اعلان پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چند شرکاء نے ''جغرافیائی سیاست‘‘ کی وجہ سے اس میلے میں شرکت کے لیے نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا،''یہ ہمارے لیے ایک مکمل تباہی سے کم نہیں، خاص طور پر ذاتی طور پر میرے لیے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ یہاں آکر کھل کر بات چیت کریں، چاہے اس کا موضوع متنازع ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
Published: undefined
امسالہ فرینکفرٹ کتاب میلے کے لیے ابتدائی طور پر 95 ممالک کے چار ہزار دو سو سے زائد نمائش کنندگان کے لیے اسٹینڈز کا بندوبست کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس بار اس عالمی کتاب میلے کا خصوصی مہمان ملک سلووینیا ہے۔
Published: undefined
دریں اثناء سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے پیش آنے والے خونریز واقعات کے بعد اسرائیلی پبلشرز اور کتاب میلے کے دیگر شرکاء اپنے ملکوں میں ہی رہ کر سوگ منا رہے ہیں۔ اسرائیلی ایسوسی ایشن آف بک پبلشرز کے چیئرپرسن بینجمن ٹریوکس نے برطانوی پبلشنگ انڈسٹری کے میگزین ''بک سیلر‘‘ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' جہاں تک میں جانتا ہوں، اسرائیل میں جنگ کے تناظر میں تمام اسرائیلی پبلشرز اور ایجنٹ، جنہوں نے فرینکفرٹ میلے میں شرکت کا ارادہ کیا تھا، اپنا یہ ارادہ منسوخ کر چکے ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس بار فرینکفرٹ میں 75 ویں عالمی کتاب میلے کے موقع پر ایک اور ''ہائی سکیورٹی ایونٹ‘‘ کے انعقاد بھی ہونا ہے۔ کتاب میلے میں برطانوی مصنف سلمان رشدی بھی شرکت کر رہے ہیں، جو گزشتہ سال ایک حملے میں زخمی ہونے کے بعد سے عوام میں شاذ و نادر ہی نظر آئے ہیں۔ وہ اس حملے میں بال بال بچے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined