سماج

ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید

ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایران پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک گیر مظاہرے ایران کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکے ہیں۔

ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید
ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید 

ایرانی حکام نے ملک کے مغرب میں واقع کرد اکثریتی علاقوں میں اپنے کریک ڈاؤن میں شدت پیدا کر دی ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے سنندج نامی علاقے میں مظاہرین کو منشتر کرنے کی خاطر فائرنگ بھی کی۔

Published: undefined

مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے زیر حراست ہلاک کے بعد ایران بھر میں گزشتہ ایک ماہ سے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایرانی قیادت ان مظاہروں کو ختم کرانے کی کوشش میں ہے تاہم سڑکوں پر نکلنے والے افراد کی تعداد روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔

Published: undefined

ایرانی حکومت کے مطابق امینی کے ساتھ دوران حراست کوئی جسمانی بدسلوکی نہیں کی گئی لیکن ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ امینی کے جسم پر زخموں کے نشانات موجود تھے۔ امینی کی موت کے بعد منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں سیکورٹی فورسز کو خواتین مظاہرین کو مارتے اور دھکے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

یاد رہے کہ امینی کے موت کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں ایرانی خواتین کو اپنے ہیڈ اسکارف اتار کر پھاڑتے ، جلاتے اور سر عام اپنے بال کاٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔ایسی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی پوسٹ کی جا چکی ہیں۔ حکام کی جانب سے انٹرنیٹ بندش کے باوجود ایرانی دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں سے یہ ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔

Published: undefined

گزشتہ ایک ماہ سے جاری حکومت مخالف ان مظاہروں میں عوامی سطح پر شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایران میں یونیورسٹی اور ہائی اسکول کے طلباء ان مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔

Published: undefined

ایران میں جاری یہ مظاہرے 2009 کی احتجاجی گرین موومنٹ کے بعد ملک کی مذہبی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے خلاف بالخصوص ایرانی کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن سخت ترین ہو گیا ہے۔

Published: undefined

ہینگاؤ آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس نامی کرد گروپ کی جانب سے ایک آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیو میں تہران سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع سنندج، جو کہ ایک کرد اکثریتی علاقہ ہے، کا ایک منظر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایرانی فورسز کی جانب سے گولیاں چلائی جا رہی اور پولیس ان مظاہرین کے خلاف شاٹ گنز کا استعمال کر تے ہوئے ان کے گھروں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔

Published: undefined

نیو یارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران نے ایک اور ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس اہلکار موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر سنندج علاقے کا گشت کر رہے ہیں۔ اس سینٹر سے جاری کردہ بیان کے مطابق ایرانی فورسز عوامی املاک کو بھی نقصان پہنچا رہیہیں۔

Published: undefined

بائیس سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کا تعلق ایران کی کرد برادری سے ہی تھا جن کی موت نے ملک میں بالخصوص کرد لوگوں میں زیادہ اشتعال پیدا کیا ہے۔ امینی کی موت کے بعد ایران میں مظاہروں کا آغاز بھی اسی کرد علاقے سے ہوا تھا جو اب ملک بھر میں پھیل چکے ہیں۔

Published: undefined

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایرانی سیکورٹی فورسز پر آتشیں ہتھیاروں کے استعمال اور لوگوں کے گھروں پر اندھا دھند آنسو گیس فائر کرنے پر تنقید کی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اس ادارے نے دنیا پر زور دیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے ایران پر دباؤ ڈالے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران اپنے جرائم پر پردہ پوشی کرنے کے لیے ملک میں انٹرنیٹ کی بندش کر رہا ہے۔

Published: undefined

ایران حکومت کی جانب سے تاہم سنندج میں نئے سرے سے کریک ڈاؤن کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ایران کی وزارت خارجہ نے کریک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی اخلاقی پولیس کے ارکان اور سیکورٹی اہلکاروں پر پابندی عائد کرنے پر برطانوی سفیر کو بھی طلب کر لیا ہے۔

Published: undefined

اور ساتھ ہی لندن کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ایران پر عائد کی گئی پابندیوں کو 'منصوبہ بندی اور بے بنیاد' قرار دیا۔امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایران میں کیا ہو رہا ہے۔

Published: undefined

سلیوان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’یہ مظاہرین ایرانی شہری ہیں جن کی قیادت خواتین کر رہی ہیں۔ یہ عزت اور بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ہم ان مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے جو تشدد کا استعمال کرتے ہوئے ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined