ایرانی نوبل انعام یافتہ خاتون شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں بھڑکنے والے احتجاجی مظاہروں کے شعلے ایک ایسے ناقابل تنسیخ انقلاب کی شکل اختیار کرچُکے ہیں جو بالآخر موجودہ اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو فون پر دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا۔
Published: undefined
شیریں عبادی جو سن 2009 میں جلاوطنی کے بعد سے لندن میں مقیم ہیں ایرانی حکومت کی سخت ناقد اور حکومت مخالف مظاہروں کی برملا حمایتی رہی ہیں۔ حکومت کے دیگر اور ناقدین کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ مہسا امینی کی وفات کے بعد سے اٹھنے والی احتجاج کی لہر حکام کو درپیش ایک ایسا چیلنج ہے جس نے ایران میں رائج مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی قانونی حیثیت پر کھلے عام سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ انقلابی عمل ایک ریل کی طرح ہے جو اپنی منزل کو پہنچنے سے پہلے نہیں رکے گا۔‘‘
Published: undefined
گزشتہ برس ستمبر کے وسط میں ایران کی ’’اخلاقی پولیس‘‘ نے 22 سالہ مہسا امینی کو تہران میں مبینہ طور پر حجاب درست طریقے سے نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد وہ اسے پولیس اسٹیشن لے گئے تھے، جہاں وہ کوما میں چلی گئی تھی۔ تین دن بعد 16 ستمبر کو مہسا امینی ہسپتال میں ہی دم توڑ گئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد سے ایران کے مذہبی حکمرانوں کو بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا ہے۔
Published: undefined
اپنے دفاع میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا امینی کی موت ان کو گرفتاری سے قبل درپیش صحت کے مسائل کے باعث ہوئی تھی، اور امریکہ اور دوسرے ’ایران دشمن ممالک‘ پر مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے سے حالیہ مظاہروں کے پیچھے کارفرما ہونے کا الزام لگایا ہے۔
Published: undefined
ایرانی حکام نے ان مظاہروں کو روکنےکے لیے سخت اقدامات بھی کیے اور اب تک مہسا امینی کے موت پر ہونے والے احتجاج سے منسلک کم از کم چار افراد کو پھانسی دی ہے اور کئی اور کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ایکٹوسٹس کا کہنا ہے کہ ان حکومتی اقدامات کا مقصد لوگوں کو ڈرانا اور ان کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے سے روکنا ہے۔
Published: undefined
اب کئی ماہ سے جاری مظاہروں میں عوام سڑکوں پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف نارے اور موجودہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس طویل احتجاج کے سلسلے کو ایرانی عوام میں معاشی مسائل، اقلیتوں کے خلاف نسلی تفریق اور سخت معاشرتی اور سیاسی پابندیوں کے باعث برسوں دبے غصے کے اظہار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے لیکن حکومت کے سخت اقدامات کے بعد سے ان مظاہروں میں کمی آئی ہے۔
Published: undefined
اس حوالے سے شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ ایرانی ریاست کی جانب سے تشدد عوام میں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موجود غم و غصے کو مزید بڑھاوا دے گا کیونکہ ان کی شکایات سے متعلق ابھی تک حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ ان کے مطابق کئی مہینوں مسلسل جاری اس احتجاج نے ایک مختلف شکل اختیار کر لی ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی اختتام کو نہیں پہنچا ہے۔
Published: undefined
شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ ایران میں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی حکومت کے خاتمے کے لیے مغربی ممالک کو ’’عملی اقدامات‘‘ کرنا ہوں گے۔ مثلاﹰ ایران سے اپنے سفیروں کو واپس بلانا اور تہران سے اپنے سیاسی تعلقات محدود کرنا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مغربی حکومتیں طویل عرصے سے تعطل کا شکار سن 2015 کے جوہری معاہدے سمیت ایران کے ساتھ کسی اور معاہدے پر اتفاق نہ کریں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined