قریب 70 سال کی عمر کو پہنچنے والی خاتون گُل شیریں 260 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے خیبر پختونخوا سے پنڈی شہر پہنچیں جہاں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹنے والا ان کا بیٹا مقید ہے۔ حکام نے ان کے بیٹے کو شہر کی مرکزی جیل میں رکھا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اکثر جیل فون کر کے اپنے بیٹے سے بات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ماں کے طور پر، میں خود کو مطمئن کرنے کے لیے اسے ذاتی طور پر دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ ٹھیک ہے؟ اس لیے میں ہر ماہ طویل سفر کے بعد جیل تک پہنچتی ہوں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں گُل شیریں کی کہانی تنہا نہیں۔ سینکڑوں گھرانوں میں ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (NCHR) کے مطابق، شیریں کا بیٹا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 945 ایسے افراد میں سے ایک ہے جو راولپنڈی جیل میں آہنی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
Published: undefined
ان قیدیوں میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو پنجاب میں جرائم کے مرتکب ہوئے۔ انہیں اپنے آبائی صوبے سے بہت دور کی جیلوں میں رکھا گیا ہے لیکن ان کے اہل خانہ، جن میں سے بہت سے معاشی طور پر پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ قیدیوں سے ملنے کے لیے طویل سفر اور جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قیدیوں کو ان کی آبائی ریاستوں میں رکھا جانا چاہیے۔
Published: undefined
شمال مغربی شہر کوہاٹ کے ایک رہائشی مختار شاہ کا چھوٹا بھائی اس وقت جیل کاٹ رہا ہے۔ مختار شاہ کہتے ہیں، ''اس امر سے کوئی انکار نہیں کہ میرے چھوٹے بھائی نے جرم کیا ہے اور اسے سزا ملنی چاہیے لیکن ہم (اور ہمارا خاندان) کیوں تکلیف اٹھائے؟‘‘ مختار شاہ کا حکام سے اپنے قیدی بھائی کو اُس کی فیملی کی رہائش سے قریب کسی جیل میں منتقل کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم اتنے غریب ہیں کہ ہم کام چھوڑ کر جیل میں اُس سے ملنے کے لیے بس زیادہ کرایہ ادا کر کے جانے کے متحمل نہیں ہیں۔‘‘
Published: undefined
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک کی جیلوں میں اکثر گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار گروپ ہے۔ اس کی ترجمان ماہین پراچہ نے ڈی ڈبلیو کو بتیا، ’’ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ تمام قیدیوں کو ان کے آبائی صوبوں کی جیلوں میں نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے جیلوں میں حد سے زیادہ بھیڑ ہے۔‘‘ ماہین پراچہ کا مزید کہنا تھا،'' جہاں بھی ایسا ہوتا ہے، یہ غریب خاندانوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے قیدی رشتہ داروں سے ملنے کے لیے لمبی دوری کا سفر کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ۔‘‘
Published: undefined
ہیومن رائٹس واچ نے بھی مارچ میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں ملک کی جیلوں میں بھیڑ پر تنقید کی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا، ''پاکستانی جیلیں حد سے زیادہ قیدیوں سے بھری ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ تین افراد کے لیے بنائے گئے سیلز میں 15 تک قیدی رکھے جاتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
پنجاب کے ایک سینیئر پولیس اہلکار میاں فاروق نذیر نے حال ہی میں ایک انیشی ایٹیو شروع کیا ہے جس میں قیدیوں کو اپنے اہل خانہ سے ویڈیو کال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اقدام فی الحال راولپنڈی اور لاہور کے شہروں کی سینٹرل جیلوں میں دستیاب ہے۔ ایک وکیل صفدر چوہدری نے کہا کہ اسے پنجاب کی دیگر جیلوں تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی سربراہ رابعہ جویریا آغا کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی حکومت کے ساتھ قیدیوں کو ان کے آبائی صوبے کے علاوہ دیگر صوبوں کی جیلوں میں ڈالے جانے کا معاملہ اٹھایا ہے، لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز