جرمنی یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کے شکار ملکوں میں سے ایک ہے۔ ان حالات میں کرسمس کی روشنیاں اور کرسمس بازار بھی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
جرمنی میں کرسمس کا تہوار اپنی آب و تاب سے شروع ہوچکا ہے۔ وائٹ کرسمس کے آثار نظر آ رہے ہیں اور اس سال کی پہلی برف باری بھی ہو چکی ہے۔ ہر شہر میں کرسمس کے بازار سجے ہیں۔ مراکز میں جگمگاتے قمقموں اور کرسمس لائٹس کی جھالریں لٹکتی نظر آ رہی ہیں۔ یعنی کرسمس کا اصل روحانی احساس ہر طرف پایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
لیکن جرمنی میں توانائی کے بحرانکے سبب کرسمس لائٹوں سے لوگوں کی بے پناہ محبت کسی حد تک متنازعہ بن گئی ہے۔ عوامی مقامات پر آرائشی لائٹس کے ذریعے استعمال ہونے والی توانائی نہ صرف مہنگی ہے بلکہ اس کا یوکرین کی جنگ سے بھی گہرا تعلق ہے۔
Published: undefined
کرسمس کے موسم کے آغاز سے بہت پہلے جرمنوں نے یہ بحث شروع کر دی تھی کہ اپنے اپنے گھروں کے سامنے یا صحن میں 'کرسمس لائٹیں لگانا‘ کتنا اخلاقی ہے؟ کیا واقعی یہ ضروری ہے کہ سانتا کلاز بالکونی سے لٹک رہا ہو یا جلتے بجھتے قمقموں سے آراستہ قطبی ہرن سجایا جائے؟
Published: undefined
کرسمس کے موسم میں توانائی کو کس حد تک خرچ کیا جانا چاہیے اور کتنا نہیں؟ اس بارے میں جرمن عوام میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ یوکرین کی حمایت ظاہر کرنے کے لیے بجلی کے تمام غیر ضروری استعمال کو روک دیا جانا چاہیے۔ لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ کرسمس کی سجاوٹ کے ساتھ لوگوں کے حوصلے بلند کرنا، ایک دوسرے کو خوشی کا احساس دلانا ، خاص طور پر بحران کے وقت میں نہایت اہم ہے۔
Published: undefined
جرمن ماحولیاتی تنظیم'انوائرمینٹل ایکشن‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر یورگن ریش نے اس بحث کا آغاز یہ بتاتے ہوئے کیا کہ کرسمس کے موسم میں بجلی کی کھپت خاص طور پر زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر اس سال بہت کم چراغاں کیا جانا چاہیے۔
Published: undefined
ریش کے بقول، ''ایسا نہیں ہے کہ جرمنی میں کرسمس کے وقت اندھیرا چھا جانا چاہیے لیکن 'اسٹریٹ شاپنگ‘ کے لیے سڑکوں پر روشنیوں کی چکا چوند کرنے کی بجائے، جو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتی ہیں، ہمیں ضروری چیزوں پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘
Published: undefined
ستمبر 2022 ء میں برلن سینیٹ نے اعلان کیا کہ وہ جرمن دارالحکومت کے ارد گردکرسمس کی روشنی کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے عوامی فنڈز کا استعمال نہیں کرے گی۔ اس کا جواز توانائی کا بحران اور پیسہ بچانے کی ضرورت تھا۔
Published: undefined
برلن کے مغربی حصے میں مشہور زمانہ Kurfürstendamm بولیوار کو سجانے والی ایک لاکھ چالیس ہزار 'ایل ای ڈی لائٹوں‘ کو گزشتہ ہفتے آن کیا گیا تھا لیکن یہ محض نجی عطیات کی بدولت ممکن ہوا۔ دوسری طرف 'اُنٹر ڈین لِنڈن‘ کے برلن بلیوار کے ساتھ لگے درخت اپنی معمول کی چمکتی ہوئی روشنیوں کے بغیر نظر آ رہے ہیں۔
Published: undefined
جرمنی کے کچھ شہروں نے توانائی کی بچت کے لیے کرسمس بازاروں کے کھلنے کے اوقات کو مختصر کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ جیسا کہ جرمنی کے شہر فولڈا میں ہفتے میں ایک دن بازاروں کو بند رکھا جاتا ہے۔
Published: undefined
تاہم جرمن 'شومینز ایسوسی ایشن‘ اس تبدیلی کے نتیجے میں بجلی کی کوئی حقیقی بچت نہیں دیکھتی اور کرسمس بازاروں کی اہمیت کو ایک ایسا مقام سمجھتی ہے، جہاں لوگ جمع ہو سکتے ہیں اور مل سکتے ہیں، خاص طور پر مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔
Published: undefined
تاہم برلن کے ایک بہت ہی مشہور علاقے 'بیبل پلاٹس‘ کو توانائی کا بحران کسی صورت اثر انداز نہیں کر سکا۔ یہاں آنے والوں کے حوصلے پست نہیں کیےگیے۔ برلن کے اس خاص کرسمس بازار کا ماحول انتہائی خوشگوار ہے، جہاں دیگر کرسمس مارکیٹوں کے برعکس خوب جگمگاتی روشنیاں ہر طرف نظر آ رہی ہیں اور مارکیٹ کے بیچ و بیچ ایک بہت بڑا کرسمس ٹری نصب کیا گیا ہے۔ اس کی حسین سجاوٹ اور جگ مگ دیکھنے کے لیے لاتعداد ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔
Published: undefined
جرمن کرسمس مارکیٹیں جرمن ثقافت کی ایک بڑی علامت بھی ہیں۔ اس لیے جرمنی آنے والے غیر ملکی سیاحوں کے لیے کرسمس کا موسم غیر معمولی کشش کا باعث ہوتا ہے۔ جرمنی میں کرسمس سے پہلے کا وقت اپنی تمام مارکیٹوں اور روشنیوں کے ساتھ پوری دنیا کے سیاحوں کے لیے ایک مقناطیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ چمکتی ہوئی کرسمس لائیٹیں اگر ضرورت سے زیادہ ہو جائیں تو انرجی کا خرچ یقیناً بڑھ جاتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined