حالانکہ یہ بات پہلے بھی کہی جاتی رہی ہے کہ اگر بچوں کے دوست امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہوں تو ان کے اپنے دولت مند ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر تحقیق کی بنیاد پر محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر غریب گھروں کے بچے ایسے پڑوس میں پلے بڑھیں، جہاں امیر بچے ان کے دوست ہوں، تو بڑے ہوکر ان کے اپنے طور پر دولت کمانے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔
Published: undefined
امریکی جریدے 'نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکی محققین کی ایک ٹیم نے اس موضوع پر اپنی ریسرچ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے فیس بک کا انتخاب کیا، جو دنیا کا سب سے بڑا سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم بھی ہے۔ دنیا کے تقریباً تین ارب انسان فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
Published: undefined
محققین نے فیس بک استعمال کرنے والوں میں سے تقریباً 7.2 کروڑ افراد کے اعداد و شمار کا مطالعہ کیا۔ 25 سے 44 برس تک کی عمر کے ان افراد کی ذاتی تفصیلات کو راز میں رکھا گیا اور امریکہ میں رہنے والے ان لوگوں کے درمیان دوستی کو حقیقی دوستی مان کر اس کا مطالعہ کیا گیا۔
Published: undefined
محققین نے ایک ایلگوردم کا استعمال کیا، جس میں افراد کو ان کی سماجی اور اقتصادی حیثیت، عمر، علاقے اور کئی دیگر زمروں میں تقسیم کیا گیا۔ ماہرین نے اپنی ریسرچ میں ایک زمرہ یہ بھی بنایا تھا کہ امیر اور غریب ایک دوسرے سے کس طرح با ت چیت کرتے ہیں۔
Published: undefined
کسی شخص کے اس کی اپنی اقتصادی سطح سے اوپر کے کتنے دوست تھے۔ اسے 'اکنامک کنیکٹڈنیس‘ کا نام دیا گیا۔ اس پورے عمل میں جو اعداد و شمار حاصل ہوئے، محققین نے ان کا اسی موضوع پر سابقہ نتائج سے موازنہ کیا۔ اس کے علاوہ غربت پر کیے گئے گزشتہ مطالعوں کو بھی بنیاد بنا کر نتیجہ اخذ کیا گیا۔
Published: undefined
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات اور اس ریسرچ ٹیم کے سربراہ راج شیٹی کہتے ہیں کہ دو الگ الگ بنیادوں پر اخذ کیے گئے نتائج 'حیرت انگیز طور پر یکساں‘ تھے۔ پہلے مطالعے سے یہ نتیجہ نکلا کہ 'اکنامک کنیکٹڈنیس‘ اس بات کی پیش گوئی کرنے کے لیے سب سے مضبوط بنیاد ہے کہ کوئی شخص کتنی اقتصادی ترقی کر سکتا ہے۔ دوسرے مطالعے سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی گئی تھی کہ امیر یا غریب طبقات کے بچے کسی خاص شعبے میں کیوں دوست بنا لیتے ہیں۔
Published: undefined
محققین کو دو اہم باتوں کا پتہ چلا۔ پہلی یہ کہ دونوں گروپوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ کتنا تعلق رہا؟ مثلاً وہ الگ الگ علاقوں میں رہتے تھے یا مختلف ہائی اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ تحقیقات کے دوران اس بات پر بھی توجہ مرکوز کی گئی کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ امیر اور غریب طالب علم ایک ہی اسکول میں پڑھنے جاتے ہوں لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے نہ ہوں۔
Published: undefined
ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ امیر اورغریب بچوں کے درمیان دوستی نہ ہو پانے کی ایک وجہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت نہ ہونا بھی ہے۔ یعنی اسکول یا کوئی ادارہ جہا ں وہ مل سکتے ہیں، اس بات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ وہ دوست بنیں گے یا نہیں۔
Published: undefined
محققین کو امید ہے کہ ان کی اس ریسرچ سے پالیسی سازوں کو مثبت اور تعمیری اقدامات میں مدد ملے گی۔ راج شیٹی کا خیال ہے کہ دیگر ممالک میں بھی ایسی ریسرچ کے نتائج اسی طرح کے ہوں گے۔ اس لیے انہوں نے دیگر ملکوں کے محققین سے فیس بک ڈیٹا استعمال کر کے اپنے ہاں ریسرچ کرنے کی اپیل بھی کی۔
Published: undefined
آکسفورڈ یونیورسٹی کے نوم اینگرسٹ اور ڈارٹمتھ کالج، نیو ہیمپشائر کے بروس سیسرڈوٹ کا خیال ہے کہ یہ تحقیق ''سماجی سرمائے کی گہری تفہیم کے حوالے سے کافی اہم ہے اور اس کی بنیاد پر دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ریسرچ کی جانا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز