ستائیس نومبر 2020ء کے روز لیبر انسپکٹر ہُمبیرٹو کاماسمیے اور ان کے ساتھیوں نے ایک عدالت کی طرف سے اجازت لینے کے بعد ایک گھر کی تلاشی لی۔ عام طور پر وہ صرف فیکٹریوں اور زرعی فارموں کی تلاشی لیتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ٹارگٹ ایک گھر تھا، وہ بھی برازیل کے وفاقی صوبے میناس گیرائس میں اور مقصد غلاموں کے سے حالات میں جبری مشقت کرنے والے ایک انسان کو رہا کروانا۔
Published: undefined
یہ گھر پاتوس دے میناس نامی شہر میں ایک یونیورسٹی پروفیسر کا گھر تھا اور ہمسایوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس گھر میں کچھ نا کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔ ہمسایوں نے دیکھا تھا کہ جب بھی گھر کا مالک اپنی ملازمہ ماڈالینا کو کسی سے بھی بات کرتے دیکھتا، تو شدید ناراض ہوتا اور ماڈالینا سہم کر کانپنے لگتی تھی۔ پھر اس پروفیسر کے ہمسائے اس وقت اور بھی پریشان ہو گئے، جب ماڈالینا نے ایک دن ان کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھی گئی چٹائی کے نیچے ایک چھوٹا سا تحریری پیغام اس منت کے ساتھ چھوڑا کہ اسے بطور خاتون حفظان صحت سے متعلق چند اشیاء کی ضرورت ہے اور بہت تھوڑی سی رقم کی بھی۔ اس طرح ماڈالینا کے حالات زندگی اور بھی مشکوک ہو گئے تھے۔
Published: undefined
Published: undefined
لیبر انسپکٹر کاماسمیے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پروفیسر کے گھر پر چھاپا مارا، تو سب کچھ واضح ہو گیا۔ ماڈالینا وہاں غلاموں کی سی زندگی گزار رہی تھی۔ اسے نا کوئی مناسب اجرت ادا کی جاتی تھی اور نا ہی ملازمہ کے طور پر آمدنی کی حوالے سے اس کا کوئی ٹیکس ریکارڈ تھا۔ اس کے علاوہ اس کے کام کاج کے کوئی باقاعدہ طے شدہ اوقات بھی نہیں تھے اور اسے سال بھر کوئی چھٹی بھی نہیں ملتی تھی۔ ماڈالینا پروفیسر دالٹن ریگیرا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتے ہوئے ایک ایسے کمرے میں رہتی تھی، جس کا رقبہ صرف پانچ مربع میٹر تھا اور جس میں کوئی کھڑکی بھی نہیں تھی۔
Published: undefined
آج اس افریقی نژاد برازیلین خاتون شہری کو رہائی ملے چھ ہفتے ہو گئے ہیں۔ اس نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ اس کا سونے کا کمرہ کمرہ کم اور جیل زیادہ تھا۔ اب وہ ایک ایسی رہائش گاہ میں رہتی ہے، جہاں اس کی سماجی بحالی کے لیے اس کی معاشرتی اور نفسیاتی مدد بھی کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
آج ماڈالینا کی عمر 46 برس ہے۔ اسے کمر میں مستقل اور شدید درد رہتا ہے۔ 38 برس قبل ایک گھر کے دروازے پر کھانے کے لیے دستک دینے والی اس بھوکی بچی کو اسی گھر میں غلام بنا لیا گیا تھا، اس بچی کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اس دن کے بعد کی تقریباً چار دہائیاں اس بچی کی زندگی کے انتہائی تکلیف دہ برس ثابت ہوئی تھیں۔
Published: undefined
اپنی زندگی کا تقریباً 80 فیصد حصہ غلامی جیسے حالات میں گزارنے پر مجبور کر دی گئی ماڈالینا کا کہنا ہے، ''مجھے اب بہت کچھ نیا سیکھنا ہے۔ بینک کی کیش مشین سے رقم کیسے نکلواتے ہیں، کوئی موبائل فون کیسے استعمال کیا جاتا ہے اور مجھے تو ابھی تک یہ ہی سمجھ نہیں آ رہا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے اور کیوں؟‘‘
Published: undefined
Published: undefined
برس ہا برس تک قید جیسے حالات میں جبری مشقت سے رہائی ملنے کے چند ہفتے بعد اکیس دسمبر 2020ء کو ماڈالینا کا ایک تفصیلی انٹرویو ٹی وی گلوبو نامی نشریاتی ادارے سے نشر ہوا تھا۔
Published: undefined
اس انٹرویو کو دیکھ کر پورے کا پورا برازیلین معاشرہ شرمندہ ہو گیا تھا۔ اس لیے کہ ماڈالینا کی المناک کہانی سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس ملک میں ماضی میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کی روایت کی باقیات اب بھی پائی جاتی ہیں اور اس معاشرے میں نسل پرستی کی جڑیں بھی بہت گہری ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
انسانی حقوق کی تنظیم 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کے مطابق برازیل میں آج بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد انسان ایسے ہیں، جو غلاموں کے سے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا دن رات استحصال کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
غلاموں جیسے حالات میں مشقت کرنے والے انسانوں کو رہائی دلوانے کے لیے کوشاں 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کے مطابق یہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد برازیلین باشندے ایسے ہیں، جو نا تو اپنا استحصال کرنے والے عناصر کے چنگل سے فرار ہو سکتے ہیں اور نا ہی ان کے پاس دھمکیوں، تشدد، جبر، دھوکا دہی اور طاقت کے غلط استعمال کے خلاف اپنا دفاع کر سکنے کا کوئی راستہ ہوتا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
اس سوال کے جواب میں اتنے برس گزر جانے کے باوجود ماڈالینا نے شروع میں ہی اپنے لیے کسی سے کوئی مدد کیوں طلب نا کی، اس 46 سالہ افریقی نژاد برازیلین خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے علم تھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے اور ناانصافی ہے۔ لیکن میں بہت خوف زدہ تھی۔ مجھے دھمکیاں دی جاتی تھیں اور مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔ اور پھر میرے جیسی کسی لڑکی کو یہ علم کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پولیس کے پاس جا کر اپنی کوئی شکایت کس طرح درج کروائے؟‘‘
Published: undefined
Published: undefined
ماڈالینا کو یہ بات کئی برس بعد پتا چلی کہ اسے پروفیسر ریگیرا کے خاندان نے کاغذ پر بظاہر گود لیا ہوا تھا اور حکام سے اس کی تعلیم اور اچھی زندگی کے وعدے بھی کیے گئے تھے۔ مگر وہ تو برس ہا برس تک کپڑے او برتن دھوتی رہی اور صفائیاں ہی کرتی رہی تھی۔ 2002ء میں جب وہ 26 سال کی تھی، تو پروفیسر ریگیرا کے خاندان نے کاغذ پر اس کی شادی ایک 78 سالہ شخص سے کر دی تھی۔
Published: undefined
دو سال بعد اس کا شوہر، جو پروفیسر ریگیرا کا رشتے دار ہی تھا، انتقال کر گیا، تو مرنے والے کی بیوہ کے طور پر اس کی پینشن ماڈالینا کو ملنے کے بجائے پروفیسر ریگیرا کے بینک اکاؤنٹ میں جاتی رہی۔ برازیل کے ایک اخبار کے مطابق ماڈالینا کے شوہر کی جو پینشن اس کی بیوہ کے طور پر ماڈالینا کو ملنا چاہیے تھی، اس سے پروفیسر ریگیرا نے اپنی ایک بیٹی کی میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات پورے کیے۔
Published: undefined
Published: undefined
لیبر انسپکٹر کاسماسمیے کے مطابق جب سے انہوں نے ماڈالینا گوردیانو کو رہائی دلوائی ہے، اس دن کے بعد سے وہ برازیل کے اسی صوبے میناس گیرائس میں مزید پانچ ایسی گھریلو ملازماؤں کو رہائی دلوا چکے ہیں، جو مختلف لوگوں کے گھروں میں غلاموں کے سے حالات میں مشقت کرنے پر مجبور تھیں۔
Published: undefined
جہاں تک ماڈالینا کی اپنے مستقبل سے متعلق خواہش کا تعلق ہے، تو اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنی آئندہ زندگی پر توجہ دینا چاہتی ہوں۔ میں ان لوگوں سے دور رہنا چاہتی ہوں، جنہوں نے ماضی میں میرے ساتھ ظلم کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنی تعلیم مکمل کروں اور کچھ سیر وسیاحت بھی۔ اور ہاں، رہنے کے لیے اگر اپنا کوئی گھر ہو، تو یہ تو بہت ہی اچھی بات ہو گی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز