چند روز قبل پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور کی ایک عدالت میں توہین مذہب کے ایک مقدمے پر کارروائی جاری تھی، جب خالد نامی ایک شخص نے ملزم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد اس ملزم کو حراست میں لے لیا گیا۔
Published: undefined
تاہم گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو گئی جس میں پولیس اہلکار ایک گاڑی میں ملزم کے ساتھ تصاویر بنانے میں مصروف دکھائی دیے۔ اس تصویر میں ملزم مسکرا رہا ہے جب کہ ایک پولیس اہلکار انگوٹھا لہرا کر جشن منانے یا خوشی کا اشارہ کررہا ہے۔
Published: undefined
اس تصویر کے منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں موجود تقسیم بھی واضح ہے کہ جہاں ایک طرف لوگ اسے ملزم کو قاتل قرار دیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی مذمت کر رہے ہیں، تو دوسری طرف ایسے افراد بھی موجود ہیں، جو کھلے عام اس قتل کو درست قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں رائے دے رہے ہیں۔
Published: undefined
پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت جیسے معاملات انتہائی حساس ہیں اور اس انداز کے واقعات مسلسل سامنے آتے رہتے ہیں۔
Published: undefined
یہ بھی پڑھیں : ایک پاگل، دو پاگل، تین پاگل، سب پاگل
Published: undefined
پشاور میں تاہم اس واقعے کے حوالے سے زیادہ سرگرم بحث کی وجہ وہ ویڈیو بنی جو جائے واقعہ پر بنائی گئی۔ اس میں ایک مشتبہ قاتل واضح انداز سے اس قتل کا اعتراف کر رہا ہے۔ یہ ویڈیو پشتو زبان میں تھی تاہم بعض میں اس پر اردو ترجمہ بھی دیکھا گیا۔
Published: undefined
اس ویڈیو میں ملزم بتا رہا ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام اس کے خواب میں آئے اور اس سے کہا کہ توہین رسالت کے ملزم کو قتل کر دیا جائے۔ اس ویڈیو میں یہ قاتل یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ اس قتل کے لیے پستول اسے پیغبر اسلا م نے خود دیا تھا۔
Published: undefined
جلاوطن سماجی کارکن گلالئی اسماعیل پولیس کے ساتھ اس ملزم کی تصویر کے ساتھ لکھتی ہیں،''وکلاء کی جانب سے ایک قاتل کے ساتھ تصاویر لینے کے بعد پشاور کی ایلیٹ فورس کے اہلکار بھی توہین مذہب کے معاملے پر پہلے درجے کے قتل میں ملوث ایک مجرم کو ہیرو بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘
Published: undefined
ایک اور صارف لکھتے ہیں،''پاکستانی اسلام اور مسلمان اس حال کو پہنچ گیا ہے کہ مسجد کے مولوی سے بچے اور ان بچوں سے گھر کے جانور محفوظ نہیں! علم دین، قادری اور خالد غازی نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کے باغی ہیں، قاتل ہیں۔"
Published: undefined
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت سے متعلق سخت ترین قوانین موجود ہیں۔ پاکستان کے ان متنازعہ قوانین کے تحت کسی بھی شخص کو ایسا کوئی الزام ثابت ہونے پر سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔ لیکن آج تک پاکستان میں ایسے کسی بھی مقدمے میں دی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
Published: undefined
اس معاملے پر مبینہ قاتل خالد کی حمایت کرنے والے بیشتر افراد کا موقف یہ ہے کہ چوں کہ پاکستان میں عدالتی نظام کم زور ہے اس لیے ایسے واقعات میں قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے، تاہم اس موقف کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی کم زور پر قانون ہاتھ میں لیا جانا ایک شدید طرز کا جرم ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined