پاکستان میں آرٹ نے تاریخی طور پر سماجی مسائل اجاگر کرنے اور ان کے حوالے سے بات چیت کے دائرے کو وسعت دینے کے منفرد طریقے تلاش کیے ہیں۔ تاہم دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی فن کا شعبہ اس مراعات یافتہ ملکی اشرافیہ کے زیر تسلط ہے، جو مخصوص موضوعات، انداز، جمالیات اور رسمی تربیت کی طرف متوجہ ہے۔
Published: undefined
البتہ 2014ء میں قائم کیے گئے ایک غیر سرکاری پلیٹ فارم پاکستان آرٹ فورم (پی اے ایف) کا مقصد ملک میں آرٹ کے روایتی دربانوں کو روکنا ہے۔ اس فورم نے سب سے پہلے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو زیادہ متنوع اور جامع فنکاروں اور آرٹ کی طرزوں کو نمایاں کرنے کے لیے استعمال کیا۔
Published: undefined
کووڈ انیس کی عالمی وبا کے بعد اس فورم نے اپنی ایک جگہ بھی بنائی ہے، جو فنکاروں کے لیے ایک محفوظ جگہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ وہ یہاں اکٹھے ہو کروہ پدرانہ نظام کو چیلنج کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں ممنوعہ سمجھے جانے والے ہم جنس پرستوں یا ایل جی بی ٹی کیو کی شناخت کی سیاست، جنسیت اور طاقت جیسے موضوعات پر مکالمہ کرتے ہیں۔
Published: undefined
پی اے ایف کے بانی امتیاز ظفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آرٹ ہر دور میں اصلاح اور مزاحمت کا ایک ذریعہ رہا ہے، جو مختلف سماجی الجھنوں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم نہ صرف ایسے شوز کو ترتیب دیں، جو جمالیاتی طور پر دلکش ہوں، بلکہ مختلف مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے آرٹ کو ایک میڈیم کے طور پر بھی استعمال کریں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خواتین کے خلاف مظالم نے سوشل میڈیا اور مختلف ذریعوں سے ملنے والی اطلاعات کے ذریعے زیادہ توجہ حاصل کی ہے۔ خواتین سے متعلق اس صورت حال کو ملک میں پدرانہ سماجی نظام کو چیلنج کرنے والے فنکاروں کی طرف سے سخت مذمت کا سامنا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے حقوق نسواں سے متعلق ایک فیصلہ کن موقف اپنایا ہے۔
Published: undefined
اس ضمن میں شہزل ملک نے خاص طور پر طاقتور پاکستانی خواتین اور اپنی نسوانیت کی عکاسی کے لیے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ہے۔ ان کا کام خواتین کو درپیش روزمرہ بدحالی سے متعلق ہے۔ اسی طرح زینب عزیز بھی ایک نوجوان ابھرتی ہوئی فنکارہ ہیں، جو دنیا پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک اور تخلیقی انداز میں نسوانی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔عزیز بنیادی طور پر آئل پینٹ کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ان کا ایک مخصوص انداز ہے، جس میں ایک رنگی پیلیٹ اور اس کی نمائندگی میں بڑی خالی جگہیں ہیں۔ سیاہ اور سفید کے تضادات کے ذریعے، ان کا مقصد سماجی منافقت کو اجاگر کرنا ہے۔
Published: undefined
عزیز کہتی ہیں، "میرا کام خواتین کے مرکزی کرداروں کے گرد گھومتا ہے، جس طرح وہ اپنے راز اور بندھن کو بانٹتی ہیں۔ میں خواتین کے جسم کو ایک ایسے معاشرے کا منظر نامہ سمجھتی ہوں، جو اپنے اندر کئی کہانیاں رکھتا ہے،" زینب عزیز نے پاکستان کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن اور نیشنل کالج آف آرٹس سے تربیت حاصل کی ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ان اداروں نے انہیں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو چمکانے میں مدد کی ہے لیکن وہ نوجوان اور ابھرتے ہوئے فنکاروں کو درپیش رابطوں کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتی ہیں۔
Published: undefined
انہوں نےکہا، "ایک پاکستانی فنکار کے طور پر مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ہمیں ملکی یا بین الاقوامی سطح پر وہ مواقع نہیں ملتے، جس کے ہم حق دار ہیں۔ فن کی دنیا میں اپنا نام بنانے کے لیے اپنے طور پر بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‘‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ پاکستان آرٹ فورم ملک کا وہ واحد پلیٹ فارم ہے، جو ابھرتی ہوئی اور نوجوان صلاحیتوں کو سپورٹ کرتا ہے۔ پی اے ایف کے بانی امتیاز ظفر بتاتے ہیں کہ ان کا مشن متنوع فنکاروں کی مدد کرنا ہے۔ وہ نئے ٹیلنٹ کی دریافت کے لیے معمول کے مطابق فارغ التحصیل طلباء کے یونیورسٹی آرٹ شوز کے دورے کرتے ہیں۔
Published: undefined
پاکستانی قانون کے تحت ہم جنس پرستی پر پابندی ہے۔ ہم جنس پسندانہ جنسی تعلقات کی سزا دو سال سے لے کر عمر قید تک ہو سکتی ہے۔۔ اس وجہ سے ملک میں ہم جنس پرست کمیونٹی یا ایل جی بی ٹی کیو سے تعلق رکھنے والے افراد دوہری زندگیاں گزارتے ہیں اور خفیہ معاملات میں مشغول رہتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے قریبی دوستوں اور خاندان والوں سے بھی اپنی جنسی شناخت کو خفیہ رکھتے ہیں۔
Published: undefined
احمر فاروق نے اپنے جرات مندانہ اظہار کے ذریعے ایل جی بی ٹی کیو کو درپیش مسائل اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کرتے ہیں کہ کس طرح ہم جنس پرستوں پر ''نارمل‘‘ نظر آنے کے لیے ان کی مرضی کے خلاف شادیوں کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک گیلری نے ان کے تصور کے تحت ان کا کام دکھانے سے انکار کر دیا۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے کہ پریس بھی ردعمل یا قانونی نتائج کے خوف سے اکثر ان کے فن کو شیئر کرنے اور ان کے شوز کی کوریج کرنے سے انکار کر دیتی ہے کیونکہ ہم جنس پرستی پر کھل کر بات کرنے سے بھی مشکل پڑ سکتی ہے۔ فاروق شکر گزار ہیں کہ پی اے ایف نے کبھی بھی ان کے فن کو سینسر نہیں کیا، بغیر کسی تعصب کے اپنے کام کی نمائش کی اور نہ ہی اس کے تصور میں تبدیلی کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز