دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک درخواست دائر کر کے یہ استدعا کی گئی ہے کہ عدالت بھارتی حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ تاج محل سے متعلق تاریخی حقائق کو درست کر کے دوبارہ تاریخی کتابیں شائع کرے۔ عدالت نے اس درخواست کو رد یا پھر سماعت کے لیے منظور کرنے کا فی الحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔
Published: undefined
مفاد عامہ کی یہ عرضی ایک سخت گیر ہندو تنظیم 'ہندو سینا' کے صدر سرجیت سنگھ یادو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تاج محل اصل میں راجہ مان سنگھ کا محل تھا، جس کی بعد میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے محض مرمت کراوائی تھی اوریہ مغلوں کی تعمیر نہیں ہے۔
Published: undefined
ہندو سینا نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عدالت مرکزی حکومت، محکمہ آثار قدیمہ اور ریاست اتر پردیش کی حکومت کو حکم دے کہ وہ تاج محل کی تعمیر سے متعلق غلط تاریخی حقائق کو تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیں اور اس کی جگہ صحیح حقائق پر مبنی نئی تاریخی کتابیں شائع کی جائیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے سات عجائبات میں شامل مغلیہ دور کی شاندار عمارت تاج محل آگرہ میں واقع ہے، جو ریاست یو پی کا ایک اہم شہر ہے۔
Published: undefined
مفاد کی اس عرضداشت سرجیت یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تاج محل کے بارے میں کافی گہرا مطالعہ اور تحقیق کی ہے، بقول ان کے ''تاریخ کے حقائق کو درست کرنا اور لوگوں کو تاج محل کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔'' ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تاج محل پر کئی کتابوں کا جائزہ لیا اور ایک کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ جہاں کی ایک اہلیہ عالیہ بیگم تھیں اور ممتاز محل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
Published: undefined
انہوں نے اس حوالے سے ایک قدرے گم نام مصنف زیڈ اے ڈیسائی کی کتاب 'تاج میوزیم' کا حوالہ دیا، جس کے مطابق ممتاز محل کی تدفین کے لیے ایک ''بلند اور خوبصورت'' جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا، جو کہ راجہ مان سنگھ کی حویلی تھی اور تدفین کے وقت مان سنگھ کے پوتے راجہ جئے سنگھ کے قبضے میں تھی۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ حویلی کبھی گرائی نہیں گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تاج محل کا موجودہ ڈھانچہ ''ترمیم شدہ راجہ مان سنگھ کی حویلی کی تزئین و آرائش اور تجدید کاری کے سوا کچھ نہیں ہے جو پہلے سے ہی موجود تھی۔''
Published: undefined
محبت کی لافانی یادگار اور دنیا کے عجائبات میں شامل تاج محل کے حوالے سے تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اس عمارت کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں سترہویں صدی میں آگرہ میں تعمیر کروایا تھا۔ لیکن دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتیں اور ایسی سخت گیر تنظیمیں مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر کئی اہم تاریخی عمارتوں کی طرح تاج محل کو بھی ایک ہندو مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔
Published: undefined
ان کا دعوی ہے کہ دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور اس طرح کی دیگر تاریخی عمارتیں مغلوں کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ ہندو راجاؤں کی دین ہیں۔ ایسی بیشتر عمارتوں کو یہ سخت گیر ہندو اپنا قدیم مندر بتاتے ہیں اور اس کے لیے ایک مہم بھی چلا رکھی ہے۔
Published: undefined
ہندوتو کے علمبردار اور خود کو مورخ قرار دینے والے مراٹھی برہمن پرشوتم ناگیش اوک (پی این اوک) نے سن 1965 میں ''تاج محل تیجو مہالیہ ہے'' کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس تنازعے کو ہوا دی تھی۔ اوک مسلمانوں کے مقدس ترین مقام کعبہ اور مسیحیوں کے مذہبی مقام ویٹیکن سٹی کو بھی ہندو مندر قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے تاج محل کو شیو مندر ثابت کرانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے سن 2000 میں ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
Published: undefined
لیکن اوک کے نظریے کی بنیاد پر تاج محل کے حوالے سے مختلف عدالتو ں میں کیس دائر کرنے کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور تازہ ترین معاملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالانکہ اگست 2017 ء میں بھارتی آثار قدیمہ نے اپنے ایک واضح بیان میں کہا تھا کہ تاج محل میں کسی مندر کے آثار اور اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined