خوشبو کا استعمال صدیوں سے انسانی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ہمیشہ سے ہی عطر اور خوشبوؤں کا استعمال تو کیا جاتا رہا ہے، مگر یہ خوشبوئیں زیادہ تر نباتاتی اور مقامی طور پر تیار کردہ ہوتی تھیں جن کے استعمال کا سماجی کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی پہلو بھی ہوتا تھا۔ اس کے برعکس ماضی میں ملک میں جو ماڈرن پرفیومز استعمال ہوتے تھے، وہ زیادہ تر مغربی ممالک میں تیار کردہ اور جدید دور کی زندگی کے جمالیاتی پہلو کی عکاسی کرتے تھے۔
Published: undefined
اب چند برسوں سے پاکستان میں، خاص طور پر شہری علاقوں میں، خوشبوؤں، عطریات اور پرفیومز کے حوالے سے عوامی سوچ کافی بدل چکی ہے۔ پاکستانی باشندے نہ صرف روز مرہ کی زندگی میں پرفیومز استعمال کرنا پسند کرتے ہیں بلکہ ملکی منڈی میں مقامی طور پر تیار کردہ پرفیومز کا حصہ بھی مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
صورت حال سوشل میڈیا کے استعمال اور آن لائن کاروبار کے وسیع تر امکانات کے بارے ميں بڑھتی ہوئی آگاہی کی وجہ سے بھی بہتر ہوئی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر کم از کم دو ایسے بہت بڑے اور مشہور پیجز موجود ہیں، جو صرف پاکستانی پرفیومز سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد مقامی ادارے اپنا آن لائن کاروبار بھی شروع کر چکے ہیں، جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
Published: undefined
عام طور پر مغربی ممالک کے کاروباری غلبے والی بین الاقوامی پرفیوم انڈسٹری میں پاکستان کے لیے امکانات کتنے بڑھتے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ ایک سرکردہ غیر ملکی شخصیت کے پاکستان کے حالیہ دورے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ دورہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے جیریمی فریگرینس کا دورہ تھا، جو خوشبوؤں اور پرفیومز کا جائزہ لینے اور ان کے بارے میں لکھنے والی دنیا کے مشہور ترین شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے فیس بک پیج اور یو ٹیوب چینل کے فالورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں مقامی پرفیوم انڈسٹری ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کی ایک مثال پرفیوم کا کاروبار کرنے والا ادارہ 'سینٹس این اسٹوریز‘ ہے، جس کے آپریشنز اینڈ سپلائی چین مینیجر محمد ابراہیم اشرف نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہماری کمپنی نے اپنا کاروبار 2018ء میں شروع کیا۔ پاکستان میں مہنگے پرفیوم صرف ایک مخصوص امیر طبقہ ہی خرید سکتا ہے جبکہ ملک میں اکثریت مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی ہے۔ تو ہم نے اس طبقے کے لیے شانیل، گوچی اور ورساچے جیسے مشہور اور مہنگے برانڈز کے سستے 'امپریشنز‘ بنا کر بیچنا شروع کیے۔ ان کی قیمتیں پندرہ سو سے لے کر دو ہزار روپے تک رکھی گئیں تاکہ اس طبقے کا شوق بھی پورا ہو سکے۔‘‘
Published: undefined
محمد ابراہیم کے مطابق ان کے ادارے کی طرف سے پرفیوم ہاؤس بنائے جانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام میں اس حوالے سے آگہی کو فروغ دیا جائے، وہ مختلف پرفیومز کے استعمال، ان کی تیاری اور ان میں شامل خوشبوؤں کے متنوع نوٹس کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ ہوں۔ ''اکثر لوگ پرفیوم استعمال تو کرتے ہیں مگر ان میں شامل خوشبوؤں کے مختلف نوٹس میں کوئی فرق نہیں کر پاتے۔ کوئی پوچھے تو بس اتنا ہی کہا جاتا ہے کہ یہ اچھی خوشبو ہے۔ یہ بات بھلا کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ دنیا کے تقریباﹰ تمام پرفیومز میں تین سے زیادہ خوشبوؤں کے نوٹس ہیں؟‘‘
Published: undefined
پاکستان میں پرفیومز کے کاروبار کا مستقبل کیسا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں 'سینٹس این اسٹوریز‘ کے آپریشنز مینیجر نے بتایا کہ پاکستان میں پرفیومز کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، خوشبوئیں استعمال کرنے والے صارفین کی کمی نہیں اور اسی لیے یہ مارکیٹ تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے امپریشنز کی دنیا میں جلد قدم رکھا۔ ہمیں خاصی کامیابی مل رہی ہے۔ ہم بیرون ملک سے اصلی پرفیوم آئلز درآمد کرتے ہیں، جن سے مختلف امپریشنز بنا کر اپنی ویب سائٹ پر فروخت کرتے ہیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مستقبل میں ہم سارا خام مال اندرون ملک سے ہی حاصل کریں اور تمام پیداواری مراحل بھی مقامی طور پر پورے کریں۔ یوں مجموعی پیداواری لاگت بھی کم ہو جائے گی اور پاکستانی برانڈز بھی متعارف کرائے جا سکیں گے۔‘‘
Published: undefined
محمد ابراہیم نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''پاکستان میں سب سے زیادہ طلب کیے جانے والے امپریشنز میں کرسٹیاں دیئور، شانیل، وکٹوریاز سیکرٹ اور گوچی شامل ہیں۔ ہر انسان صرف اچھا پرفیوم ہی نہیں، اچھی شیشی اور اچھی پیکیجنگ بھی سراہتا ہے۔ ہمارا مقابلہ اس وقت متحدہ عرب امارات کے اداروں سے ہے، جو شاندار پیکیجنگ کے ساتھ اپنے کم قیمت پرفیوم دنیا بھر میں فروخت کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں پیکیجنگ کو مزید بہتر بنایا جائے۔
Published: undefined
اسلام آباد کے رہائشی اور خوشبوؤں کے دلدادہ قاسم علی کہتے ہیں کہ کوئی بھی پرفیوم وقت، موقع اور موسم کی مناسبت سے ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان میں جب بہت گرمی ہوتی ہے، تو ایسی خوشبو ہی اچھی لگتی ہے جو ٹھنڈک، تازگی اور راحت کا احساس دلائے۔ سٹرس، پھولوں، لکڑی اور سمندری پانی کی خوشبو سخت گرمی میں بھی تازگی کا احساس دلاتی ہے اور اسی لیے ایسی خوشبوئیں گرمیوں میں زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس سردیوں میں ہیوی فریگرینس کو ترجیح دی جاتی ہے، جو اپنے استعمال کرنے والے کو گرمائش کا احساس دے۔‘‘
Published: undefined
قاسم علی نے بتایا کہ ان کے پاس تقریباﹰ ساٹھ پرفیومز ہیں، جن کی فی کس قیمتیں تین چار ہزار سے لے کر ستر ہزار روپے تک ہیں۔ انہیں 'ولغاری‘ اور 'شانیل‘ کے پرفیومز سب سے زیادہ پسند ہیں۔ ان کی دیرینہ خواہش ہے کہ ان کے پاس اسپرٹ آف دبئی کا تیار کردہ پرفیوم 'شموخ‘ ہو، جس کی پاکستانی روپے میں قیمت تقریباﹰ اٹھارہ کروڑ سے بھی زائد ہے اور جس کی بوتل پر تین ہزار پانچ سو اکہتر ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘
Published: undefined
پرفیوم کے شوقین انسان دنیا کے ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے انسانوں کے لیے خوشبو خوشی کے بجائے تکلیف کا باعث بھی بنتی ہے۔ وکالت کے پیشے سے وابستہ پاکستانی خاتون عالیہ عنایت کے لیے کوئی بھی پرفیوم شدید الرجی کی وجہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ کسی بھی پرفیوم حتیٰ کہ ایئر فریشنر سپرے والی ہوا میں سانس لینے سے بھی انہیں فوراﹰ چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور طبیعت خراب ہونے لگتی ہے۔ سانس کی مختلف بیماریوں میں مبتلا کئی مریضوں کے لیے بھی پرفیومز باعث زحمت بن جاتے ہیں۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق انسانی جلد پر کسی خوشبو کا اثر دیر تک قائم رکھنے کے لیے اسے وہاں استعمال کرنا چاہیے، جہاں رگیں جلد سے دور نہ ہوں اور دوران خون کا نظام جلد کو تھوڑا سا گرم رکھتا ہو۔ اسی لیے تجربہ کار شائقین کوئی بھی پرفیوم کانوں کے بالائی حصے، گردن، کلائیوں یا پھر بازوؤں کے کلائیوں اور کہنیوں کے درمیان حصوں کی جلد پر لگاتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined