سری لنکا کے درجنوں غریب خاندان ملکی معاشی بحران سے پیدا مشکل حالات کی وجہ سے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے جنوبی بھارت پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بحرِ ہند کی جزیرہ ریاست تقریبا دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس وقت سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی گرفت میں ہے۔
Published: undefined
بائیس ملین کی آبادی والے ملک میں عوام کو ضروریاتِ زندگی کی بنیادی اشیاء کی شدید طلب ہے۔ ان ضروری اشیاء میں خوراک، ادویات اور پیٹرول خاص طور پر نمایاں ہیں۔ سری لنکا کے زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
اس گھمبیر صورت حال میں حکومت کو عوامی غضب کا سامنا ہے اور ان کے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں نے سیاسی اُتھل پُتھل کو شدت دے رکھی ہے۔ وزیر اعظم کے منصب سے مہندا راجا پاکسے اور ان کی کابینہ کے مستعفی ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم کی تعیناتی نے بھی عوامی غصے میں کمی نہیں پیدا کی اور حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
بھارت پہنچنے والی سری لنکا کی اکتالیس سالہ رانی (نام تبدیل کر دیا گیا ہے) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتہائی مشکل حالات میں خاندان کے آٹھ افراد جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، کا گزارا ناممکن ہو گیا تھا اور سب لوگ ایک کشتی کے ذریعے بھارت پہنچ گئے ہیں۔ اس خاندان نے اپنی تھوڑی سی زمین فروخت کر کے کشتی کرائے پر لی تھی۔ ان کے ہمراہ ایک اور خاندان کے چار افراد بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
رانی کے مطابق اس وقت سری لنکا میں ایک کلو چاول کی قیمت ڈھائی سو سری لنکن روپے ہو چکی ہے اور اتنے بڑے خاندان کو ایک دن کھانا کھلانے پر پانچ سو روپے سے زائد خرچ کرنا پڑتے تھے۔ ان کے ایک بیٹے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہے اور اس کی زندگی کے لیے بہتر خوراک اشد ضروری ہے اور بقیہ بچوں کی زندگی کے لیے بھارت ہجرت کرنا مجبوری تھا۔
Published: undefined
تامل کمیونٹی اقتصادی بحران سے شدید متاثر ہو کر بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو پہنچ رہی ہے۔ اب تک ریاستی حکام نے اٹھائیس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پچاسی افراد کا مہاجر کے طور پر دفتر میں اندراج کیا ہے۔ یہ تمام خاندان تامل کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
Published: undefined
سری لنکا کی مجموعی آبادی میں تامل اقلیت کا تناسب بارہ فیصد ہے اور یہ ملک کی سب بڑی نسلی اقلیت ہے۔ یہ کمیونٹی ابھی بھی سن 2009 میں ختم ہونے والی شدید خانہ جنگی کے اثرات سے باہر آنے کی کوششوں میں ہے کیونکہ مصالحتی عمل آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ اس خانہ جنگی میں ایک لاکھ کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
Published: undefined
انٹرنیشنل ریفیوجی قانون کے ماہر سورج گرج شنکر کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے اقتصادی اور سیاسی بحران سے زندگی کا ہر طبقہ متاثر ہو چکا ہے لیکن اقلیتی گروپوں کو اس کی شدت کا زیادہ سامنا ہے اور اس میں خاص طور پر تامل شامل ہیں کیونکہ یہ نظرانداز کیا گیا طبقہ ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ سری لنکا کی اکثریتی آبادی سنہالی کو زیادہ رعایتیں حاصل ہیں اور بقیہ نسلی و مذہبی گروپوں کو اقتصادی بحران کے دوران نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
بھارتی وزارتِ داخلہ کے مطابق سری لنکن تامل کمیونٹی کے مہاجرین ایک سو آٹھ کیپموں میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد اٹھاون ہزار آٹھ سو تینتالیس ہے۔ یہ تمام کیمپس تامل ناڈو میں ہیں۔
Published: undefined
دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ بھارت سن 1951 کے ریفیوجی کنوینشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ جو بھی غیر قانونی مہاجر بھارت میں داخل ہوتا ہے، اس کو سن 1946 کے فارنر ایکٹ کے تحت لایا جاتا ہے۔ بھارت میں سیاسی پناہ کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی (UNHCR) غیر قانونی افراد کی درخواستوں پر کام مکمل کرتی ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی ایجنسی کا غیر مکمل فارم اکثر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ بھارت کو ایک مناسب اور بہتر ریفیوجی پالیسی متعارف کرانی چاہیے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز