ایک جرمن طالبہ آنا (نام تبدیل کر دیا گیا) کی عمر سترہ برس ہے اور وہ کورونا کی وبا سے قبل اپنے دوستوں سے باقاعدگی سے ملتی جلتی تھی۔ اس کے دوستوں کا حلقہ سات لڑکیوں پر مشتمل ہے اور کئی برسوں سے وہ سب ایک ساتھ حصول تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Published: undefined
اب کورونا کے مہینوں میں یہ ملاقاتیں مفقود ہو کر رہ گئی ہیں۔ اب نا آپس میں بات چیت ہے اور نا ہی شاپنگ یا شام کے وقت کھانے پینے کے لیے باہر نکلنا ہو رہا ہے۔ آنا کے مطابق اب سب تعلق آن لائن ہو کر رہ گیا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
کورونا کی وبا کی دوسری لہر میں شدت پیدا ہونے کے بعد جرمنی میں اسکولوں کو گزشتہ برس نومبر میں دوبارہ بند کر دیا گیا تھا اور ابھی تک ان کو کھولنے کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ طلبا کی تعلیم آن لائن جاری ہے۔ اس تناظر میں آنا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے کوئی ملاقات نہیں کر سکی اور اس کے والدین بھی اسے دوستوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہے۔
Published: undefined
آنا کے مطابق اس کے اپنی گہری سہیلیوں کے ساتھ براہ راست روابط نا ہونے کے برابر ہیں۔ آنا کے معمولات میں اپنی ایک ہمسائی کے ساتھ کچھ دیر کے لیے بس واک کرنا ہی باقی رہ گیا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
کورونا کی وبا کی وجہ سے گزشتہ برس شروع ہونے والے لاک ڈاؤن کو اب ایک سال ہونے والا ہے۔ اس دوران معمول کے تعلقات کو برقرار رکھنا مشکل امر بن چکا ہے اور ان کو فی الحال مزید استوار کرنا بھی ممکن نہیں۔ مختلف گروپوں کے بڑے اجتماعات پر مکمل پابندی عائد ہے۔
Published: undefined
اس پابندی کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کرنا ہے۔ حالیہ شدید سرد موسم نے مختلف افراد کے آؤٹ ڈور رابطوں یا ملاقاتوں کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔ والدین کے ہوم آفس اور بچوں کی آن لائن کلاسوں نے کم عمر دوستوں کے سماجی تعلقات کو نا ہونے کے برابر کر دیا ہے۔
Published: undefined
کھیلوں کے مراکز بھی لاک ڈاؤن کے باعث بند ہیں اور اس وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کی کھیلوں کی سرگرمیاں بھی وبا کی نذر ہو چکی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمن دارالحکومت برلن کے ایک نفسیات دان وولفگانگ کرؤگر نے دوستی کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وبا کے دوران وہ دوستیاں اور تعلقات جن کی بنیاد میل جول اور مشترکہ سرگرمیاں، جیسا کہ کسی کوائر میں گلوکاری اور ایک ساتھ کھیلنا، ایسی دوستیاں کسی حد تک زائل ہو چکی ہیں۔
Published: undefined
کرؤگر کے مطابق اسی باعث لاک ڈاؤن میں تنہائی یا اکیلا پن بڑھ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال بزرگ افراد میں شدید ہو کر ابھری ہے۔ اس مناسبت سے بزرگ افراد کی نگہداشت کرنے والی سماجی تنظیم زِلبر نیٹس (Silbernetz) نے واضح کیا ہے کہ بڑی عمر کے افراد میں اکیلا پن شدید تر ہو گیا ہے اور ایسے افراد کی اس تنظیم سے معاونت کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
یونیورسٹی کالج لندن کے ذہنی صحت کے حوالے سے مکمل کیے گئے ایک سروے کے مطابق شرکاء کی نصف تعداد کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن میں ان کے رابطوں میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی جب کہ پندرہ فیصد افراد نے اپنے تعلقات میں بہتری کا ذکر کیا۔ اس سروے میں بائیس فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے تعلقات میں تنزلی آئی ہے۔
Published: undefined
ایک اور سوشل کمپنی سنیپ (Snap Inc) نے بھی وبا میں تعلقات پر ایک رپورٹ مکمل کی ہے۔ اس کے مطابق قریبی تعلقات میں مزید دوری پیدا ہوئی ہے۔ جرمن شہر کاسل کی یونیورسٹی کے ماہر سماجیات ژانوش شوبن (Janosch Schobin) کا کہنا ہے کہ روزمرہ کے تعلقات میں دوری کی ایک بنیادی وجہ میل ملاپ میں کمی ہے اور اس لیے پرانے تعلق مزید مستحکم ہوئے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز