جمعرات کے روز حماس، فتح اور دیگر 12 فلسطینی گروپ ایک برس کے اندر صدارتی اور قانون ساز کونسل کے لیے انتخابات کرانے پر متفق ہو گئے۔ اس معاہدے پر فتح کے سینیئر رہنما عزام الاحمد، حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ اور پاپولر فرنٹ فاردی لبریشن آف فلسطین کے سکریٹری جنرل طلال ناجی نے دستخط کیے۔
Published: undefined
الجزائرکی میزبانی میں ہونے والے اس مذاکرات کے لیے صدرعبدالمجید تبون کا شکریہ ادا کرنے سے قبل اسماعیل ہانیہ نے کہا، "یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس کے ذریعہ ہمیں یروشلم نظر آرہا ہے۔"
Published: undefined
فتح کے رہنما عزام الاحمد کا کہنا تھا، "ہمیں اس وقت صدر عبدالمجید تبون کی سرپرستی میں اس معاہدے پر دستخط کرنے اور اس (سیاسی) اختلاف اور فلسطینی جسم میں داخل ہو جانے والے کینسر سے نجات حاصل کرنے پر فخر ہے۔" انہوں نے کہا، "فتح گروپ کی جانب سے ہم اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے والے پہلی تنظیم بننے کا عہد کرتے ہیں۔
Published: undefined
جن دیگر اہم فلسطینی شخصیات کو دستاویز پر دستخط کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا ان میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سینیئر رہنما احمد مجدلانی، فلسطین نیشنل انیشی ایٹیو کے سکریٹری جنرل مصطفی برغوتی اور فلسطین پیپلز پارٹی کے سکریٹری جنرل بسام الصالحی شامل تھے۔
Published: undefined
الجزائز میں اگلے ماہ ہونے والے عرب سربراہی اجلاس سے قبل فلسطین کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک اور غزہ پٹی پر حکومت کرنے والے گروہ حماس سمیت 14 فلسطینی گروپوں کے درمیان دو روز تک چلنے والی بات چیت کے بعد اس معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
Published: undefined
حماس کے ترجمان حازم قاسم کے مطابق اس معاہدے میں متحدہ حکومت کی تشکیل کی کوئی بات شامل نہیں ہے البتہ اس میں پی ایل او کے ڈھانچے کو تیار کرنے، اس کی قومی کونسل اور قانون ساز کونسل کی تشکیل اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے متعلق شقیں شامل ہیں۔
Published: undefined
تاہم فلسطینی علاقوں میں یہ شبہات بہر حال برقرار ہیں کہ چونکہ انتخابات کے سابقہ وعدے پورے نہیں ہوئے تھے تو کیا اب ٹھوس تبدیلیاں ہوسکیں گی۔ معاہدے کے تحت فریقین نے ایک برس کے اندر"یروشلم سمیت تمام فلسطینی علاقوں میں قانون ساز کونسل اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے عمل کو تیز کرنے" کا وعدہ کیا ہے۔
Published: undefined
اس معاہدے میں پی ایل او کو بھی تسلیم کیا گیا ہے، جس کے سربراہ محمود عباس کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
خیال رہے کہ سن 2007 کے بعد سے سیاسی اختلافات نے ایک ریاست کی فلسطینیوں کی امنگوں کو کمزور کر دیا ہے اور صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو روکے رکھا ہے۔ آخری مرتبہ سن 2005 اور 2006 میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔
Published: undefined
غزہ پٹی کے انتخابا ت میں حماس کی کامیابی کے بعد صورت حال اور بھی زیادہ مشکل ہوگئی۔ اسرائیل کے ساتھ امن کی مخالفت کرنے والے اس گروپ نے سن 2007 میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا جب کہ محمود عباس کی مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کو مقبوضہ مغربی کنارے پر کنٹرول حاصل ہے۔ اس کے بعد سے ہی غزہ اسرائیلی مصری ناکہ بندی کی زد میں ہے اور اسے اب تک کم از کم تین مرتبہ بڑے اسرائیلی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
Published: undefined
حماس کے ترجمان قاسم نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہمیں اس مرتبہ کافی امیدیں ہیں بالخصوص ہمارے افراد پر اسرائیل کے تازہ ترین حملوں کی وجہ سے۔"
Published: undefined
الفتح اور حماس اس سے قبل مذاکرات کے کئی دور میں اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرچکے ہیں اور ماضی میں عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا تھا، لیکن ابھی تک کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں، لوگ الجزائر میں ہونے والے مذاکرات کو اس امید کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ تبدیلی کا باعث بنے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز