سماج

جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش

انسان جب کسی دوسرے ملک جا بستا ہے تو غیر ارادی طور پر بھی نظریں اپنے لوگ ڈھونڈتی ہیں، سماعت اپنی زبان سننے کی منتظر رہتی ہے اور ہمارے کھانے توخیر ہیں ہی بے مثال که زبان ذائقہ بھولے نہیں بھول سکتی۔

جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش
جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش 

اپنوں کو آس پاس پا کر ایک ذہنی آسودگی ملتی ہے جو شاید انگریزی میں کمفرٹ زون کہلاتی ہے۔ یہ جگہ ہمیں اتنی آرام دہ اور خوشگوار لگتی ہے کہ اس سے باہر نکلنا گراں گزرنے لگتا ہے۔ یہی ذہنی آسائش ذہنی ترقی میں حائل بھی ہو سکتی ہے۔ کچھ نیا سیکھنے، سوچ کو وسعت دینے اور آگے بڑھنے کے لیےیہ کمفرٹ زون مواقع محدود کر سکتا ہے۔

Published: undefined

اکثر اوقات ہم پاکستانی یہی سب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک غیر ملک میں بھی منی پاکستان بسا لیتے ہیں۔ جرمنی جیسے ملک میں جہاں زبان ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے اور روزمرہ زندگی میں مکمل طور پر ناگزیر ہے، اس کا سیکھنا اور باقاعدگی سے استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔

Published: undefined

زبان سیکھ بھی جائیں تو جب تک لوکل جرمن سے باقاعدگی سے بات چیت نہ ہو تو یہ زبان استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور خود اعتمادی اور فراوانی مشکل بن جاتی ہے۔ آپ کا سماجی حلقہ اگر صرف اور صرف اپنی مادری زبان تک محدود رہے تو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی زبان ایک مسئلہ ہی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے انضمام کے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ صرف نوکری ہی نہیں بلکہ ڈاکڑ سے بچوں کے سکول تک، خریداری سے خط و کتابت تک ہر جگہ مشکلات پیش آتی ہیں۔

Published: undefined

جس ملک بسنے آئیں ان کا سسٹم اور قوانین سمجھنا اور سب کے مطابق چلنا تو دراصل اخلاقی فرض ہے۔ نئے آنے والوں کے لیے انٹیگریشن کے باقاعدہ کورس ترتیب دیے گئے ہیں۔ فیملی سینٹر والدین کے لیے تمام تر معلومات مہیا کرتا ہے جبکہ بچوں اور گھریلو خواتین کے لیے مختلف کورس اور مواقع موجود ہیں۔ اگر تمام تر معاملات صرف اپنے ملک کے لوگوں تک محدود کر لیے جائیں تو بہت سے پہلے سے حاملہ خیالات مزید پختہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس ملک میں انٹی گریٹ ہونے کا مطلب کوئی مذہبی حدود پھلانگنا یا اپنی اقدار کو ہاتھ سے چھوڑ دینا نہیں ہے بلکہ سوچ میں وسعت لا کر کچھ سیکھنا اور کچھ سکھانا ہے۔

Published: undefined

ایسانہ ہو کہ ہم دوسروں کو نسل پرست کہتے کہتے خود بھی نسل پرستی کا شکار ہو جائیں اور بضد رہیں کہ ہم ہی سب سے بڑھ کر ہیں۔ بھلا ہو ویجیٹیرین کا، جن سے حلال کھانوں کی ورائٹی عام ہوتی جا رہی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ویگن، جو جیلٹین تک کا خدشہ استعمال ختم کر رہے ہیں۔ میرے اپنے 12 سال کے تجربے میں بھی سماجی محفل سے بچوں کے سکول تک ایک دفعہ کھانے پینے کی حدود اور پسند بتا دینا کافی رہتا ہے۔ آپ کی اس ذاتی پسند کو قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اب تو کوئی آپ کی پسند اور مرضی کے خلاف آپ کو پانی تک پیش نہیں کرتا، اس لیے خود ہی یہ سوچ لینا کہ ہم کسی سے ملنا جلنا نہیں رکھ سکتے، بے وقوفی ہے۔

Published: undefined

یہاں کے لوگ کچھ خشک مزاج اور اپنے کام سے کام رکھنے والے تصور کیے جاتے ہیں اور ہم پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور گرم جوشی سے متاثر بھی جلد ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اچھی عادتیں ہم ان سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ وقت کی پابندی یقیناً سر فہرست ہے۔ مخصوص اوقات میں خاموشی رکھنا، سیدھی اور صاف بات کرنا، ہیرا پھیری سے پرہیز کرنا اور ایمانداری سے بروقت کام انجام دینا وغیرہ وغیرہ۔

Published: undefined

اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ان کی پر کھ کا تجربہ رکھنا بھی ذہنی ترقی کا اہم جزو ہے۔ خود ساختہ خیالات سے بہت بہتر ہے کہ بات کر لی جائے۔ حال ہی میں ایک نئی آنے والی فیملی نے آفس کے اوقات کے دوران نماز پڑھنے کا پوچھا تو انہیں درجنوں امثال مل گئیں، جہاں صرف بات کرنے سے نماز کی جگہ اور باقاعدہ بریک کا انتظام کیا گیا۔ نسل پرستی اور مذہبی نفرت بھی بہرحال ایک حقیقت ہے اور قانونا جرم بھی ہے۔ ایسی کسی حق تلفی پر آواز اٹھانے کے لیے بھی انٹیگریٹ ہونا اور قوانین سمجھنا ضروری ہے۔

Published: undefined

یہاں سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں سے میل جول رکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ بہت اہم ہے۔ برائی اپنے سماجی حلقے اور ہر قسم کے ذاتی اور پروفیشنل تعلق کو صرف ان تک محدود کر لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے یہاں رہنے کے باوجود کچھ خیالات دقیانوسی اور اس قدر پرانے رہ جاتے ہیں کہ یقین نہیں ہوتا۔ گرچہ نئی نسل میں مثبت تبدیلی واضح دیکھنے کو مل رہی ہے مگر اب بھی کہیں کہیں دعوتوں کی دوڑ نظر آتی ہے اور کہیں وہی عمارت کا دکھاوا۔

Published: undefined

محفلوں میں گفتگو خود کو بہتر مسلمان اور زیادہ پاکیزہ ثابت کرنے، کون سی گاڑی اور کتنا بڑا گھر کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے۔ ایک بے جا مقابلے بازی اور کمپلیکس کا ماحول بن جاتا ہے۔ ایسے رسمی بڑے سماجی حلقے سے بہتر چندبے تکلف پاکستانی دوست ہونا ہے جن سے ملنے کے لیے پہلے پانچ، چھ طرح کے کھانے پکانا شرط نہ ہو، جہاں سب کھلے دل سے ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔

Published: undefined

نہ کوئی بہترین میزبان ہونے کا میڈل جیتنا چاہتا ہو اور نہ ہی کوئی اپنے کو بہتر مسلمان اور بہتر والدین ثابت کرنے پر بضد ہو۔ اس طرح اپنوں کے ساتھ ساتھ جرمن اور دیگر ملکوں سے آئے لوگوں کے لیے بھی سماجی حلقے میں جگہ بن پاتی ہے۔ یہ میل جول ہمیں اپنی اچھی اقدار دوسروں تک پہنچانے کا موقع بھی دیتا ہے۔ پاکستانیوں کے بارے میں خود ساختہ خیالات اور میڈیا کی قائم کی گئی رائے میں مثبت تبدیلی کے لیے بھی یہ میل جول رکھنا ضروری ہے۔ اپنے تمام رویوں اور عادات سے ہم اپنے ملک اور اپنی تہذیب کی نمائندگی ہی تو کرتے ہیں۔

Published: undefined

اپنی نئی نسل کو اپنی روایات سے جوڑ کر رکھنا ضروری ہے۔ خوش قسمتی سے تمام مساجد میں عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچوں کے لیے بھی علیحدہ انتظام ہوتا ہے۔ اپنے رشتوں سے قربت قائم رکھنے کے لیے جتنا ممکن ہو پاکستان ضرور جائیں اور خاص کر بچوں کو دادا دادی، نانا نانی اور تمام رشتے داروں کی اہمیت کا احساس دلائیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ دل اور سوچ میں وسعت ضرور رکھیں۔ سماجی حلقے کو محدود کرنا بچوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا چلا جاتا ہے کیونکہ سکول میں انہیں زبان بھی بولنی پڑتی ہے اور ہر ایک سے دوستی بھی رکھنی پڑتی ہے۔

Published: undefined

دنیا حقیقتا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور ہمیں خود پسندی سے نکل کر ترقی اور جدت کی تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اپنی اگلی نسل کو سب کے ساتھ آگے لے کر چلنا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined