پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے متعلق ايک اسٹارٹ اپ سے وابستہ ثنا ہاشم ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہيں۔ وہ ملازمت کی غرض سے اب پاکستان چھوڑنا چاہتی ہيں مگر انہيں اپنے خاندان کی بھی فکر ہے۔ اس انتيس سالہ خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی چند کمپنيوں ميں ملازمت کے ليے درخواستیں دے رکھی ہیں اور مجھے انٹرویو کی کالیں بھی موصول ہوئی ہیں۔ لیکن اگر مجھے نوکری مل بھی جاتی ہے، تو میں اپنے بیگ تیا رکر کے فوراً ہی نہیں جا سکتی۔ میرے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘
Published: undefined
پاکستانی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے شائع کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 میں تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار پاکستانیوں نے اپنا ملک چھوڑا جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد تقریباً تین گنا ہو کر سات لاکھ پینسٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ سن 2022 کے ان اعداد و شمار میں 92 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد جیسے ڈاکٹر، انجینئر، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور اکاؤنٹنٹ شامل تھے۔ ان میں سے کچھ اکثر مغرب کی طرف جاتے ہیں تو باقی مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں۔
Published: undefined
یہ رجحان سن 2023 میں بھی جاری ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں بھی تقریباً دو لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک تجربہ کار امیگریشن ایجنٹ ناصر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے پہلے انہوں نے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد ميں ايک دو سال کے اندر اندر اتنا اضافہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے کیا، ''ترک وطن کرنے والے صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگ روزانہ میرے دفتر آتے ہیں۔ لوگ بہت تھکے ہوئے اور مایوس ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
آئی ٹی ماہر نعمان شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے وہ گزشتہ سال سعودی عرب چلے گئے تھے۔ انہوں نے بتايا، '' پاکستان ميں ميری محدود آمدنی گھر چلانے کے لیے ناکافی تھی، جبکہ ریاض میں ملازمت کی آفر کافی اچھی تھی۔‘‘
Published: undefined
پاکستان میں کئی دہائيوں سے نوجوان افراد کو اپنا کیریئر آگے بڑھانے، روزگار کی تلاش، کم اجرتوں اور محدود امکانات جيسے مسائل کا سامنا ہے۔ آج کل ملک ایک گہرے سیاسی اور معاشی بحران کا بھی شکار ہے۔ جے ایس گلوبل سکیورٹیز کے مطابق رواں ماہ میں ملک میں افراط زر کی سالانہ شرح 37 فیصد تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے، جو جولائی 1965 کے بعد سے سب سے زیادہ بنتی ہے۔
Published: undefined
مسلسل بگڑتی ہوئی معاشی اور سياسی صورت حال نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانیوں کو بھی پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔ پہلے طلبا کام کرنے کے لیے واپس اپنے ملک آتے تھے، لیکن اب کم ملازمتیں دستیاب ہونے کے باعث ان میں سے بہت سے بيرون ممالک ہی ملازمتیں اور مستقل رہائش اختيار کرنے کو ترجيح دے رہے ہيں۔
Published: undefined
پاکستانی کرنسی روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں بہت سے والدین کو بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے لینے والے اپنے بچوں کو رقوم کی منتقلی بھی اب کہيں زیادہ مشکل لگ رہی ہے۔ طالبہ اجالا طارق نے بتايا، ''میرے والدین کو آسٹریلیا میں میری تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے میں اب بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ تاہم امید ہے کہ اس فیصلے کا نتیجہ اس وقت نکلے گا، جب میں آخر کار آسٹریلوی پاسپورٹ حاصل کرلوں گی۔‘‘
Published: undefined
دريں اثنا پاکستان کے پہلے سے ہی کمزور نظام صحت کو مقامی ہسپتالوں میں عملے کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ کراچی کی ايک ماہر امراض چشم ڈاکٹر افشین اکبر نے کہا، ''ہمارے چند بہترین ڈاکٹروں کو امریکہ منتقل ہوتے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن کیا ہم انہيں غلط کہہ سکتے ہیں؟ سرکاری ہسپتالوں کے حالات اکثر خراب ہوتے ہیں اور صحت کے شعبے میں پیشہ ور کارکنوں کو بہت کم تنخواہیں ملتی ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined