سماج

پاکستانی معاشرہ اور عمومی سماجی رویے

مشترکہ مفاد میں جڑے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد انسانی تہذیب و معاشرے کو ترتیب دیتے ہیں۔ ہر لمحہ بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیے معاشرے کو ارتقاء کی ضرورت ہے۔

پاکستانی معاشرہ اور عمومی سماجی رویے
پاکستانی معاشرہ اور عمومی سماجی رویے 

مہذب معاشروں میں یہی اختلاف رائے، نظریات کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور انسانی نظریات کا باہمی احترام ہی معاشرتی نمو کو ایک سمت عطا کرتا ہے، ورنہ بے سمت معاشرہ جمود کا شکار ہو کر اپنی موت آپ ہی مر جاتا ہے۔

Published: undefined

یہاں تک تو یہ بات بہت ہی سادہ اور عام فہم ہے۔ لیکن چند آفاقی حقائق ایسے بھی ہیں، جن کے ساتھ سمجھوتہ نا گزیر ہے۔ جیسا کہ، جہاں دو انسان موجود ہیں وہاں اختلاف رائے ضرور ہو گا اور طاقت ور اپنی رائے کو منوانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرے گا۔ ایسے میں کم زور کے لیے بچ نکلنے کا واحد راستہ سیاسی درستی (political correctness) کا سہارا لینا ہے۔

Published: undefined

کسی معاملے پر مروجہ معاشرتی رواج کو اپنانے کے لیے دل و دماغ آمادہ نہ بھی ہوں لیکن تب بھی ان پر کار بند رہنا بقا کے لیے ضروری ہے کہ اقدار سے بغاوت بھی طاقت ور کو ہی زیبا ہے۔ اسی طرح کا ایک نظریہ حقوق نسواں بھی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کو محکوم اور مجبور طبقہ سمجھا جاتا ہے، جو پدرسری روایات کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہی ہے۔ لیکن تجزیے کے درست اور منصفانہ نتائج کے لیے دیوار کے اس پار دیکھنا بھی ضروری ہے۔

Published: undefined

دنیا بھر میں شروع ہوئی حقوق نسواں کی تحریکوں نے پاکستان کے روایتی معاشرے کے جمود کو بھی توڑا ہے اور اس کے نتیجے میں خواتین میں اپنے حقوق کے متعلق آگاہی کو ایک نئی سمت عطا ہوئی۔ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ حقوق سے آگاہی نے سماجی فرائض کی ادائی کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔

Published: undefined

میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرسودہ روایت کے پالن میں زیادہ کردار بھی اسی طبقے کا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ عورت جو جہیز کو ایک لعنت سمجھتی ہے، کیا وہ خود اس رواج سے دست بردار ہونے کو تیار ہے؟ جب سے ہوش سنبھالا ہر کسی کو یہی کہتے سنا کہ جہیز ایک لعنت ہے۔ لکھنے والوں نے اس پر کیا کچھ نہیں لکھا، لیکن عملی طور پر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ معاشرے کی تمام اکائیاں نصابی طور پر ایک سماجی معاملے پر متفق ہیں تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں کہ عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔

Published: undefined

چند ہفتے قبل میری ایک قریبی عزیزہ کی شادی کی تقریب با احسن انجام پائی۔ لڑکی نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے بل کہ ایک باعزت ملازمت بھی کر رہی ہے۔ شادی کے معاملات طے کرتے ہوئے جہیز اور دیگر رسومات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا لیکن دولہا اور اس کے والد کا یک زبان جواب تھا کہ وہ تقریبات کو سادہ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کسی قسم کے جہیز کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن چند دنوں بعد صورت حال بالکل مختلف ہو گئی۔ دولہا کی ماں اور بہنوں نے اشاروں کنایوں میں یہ پیغام پہنچانا شروع کر دیا کہ وہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سادگی کا مظاہرہ کرنے سے ان کی ناک کٹ جائے گی۔ لہذا بات تقریب کو ممکنہ حد تک سادہ رکھنے سے شروع ہوتے اس حد تک جا پہنچی، جہاں اخراجات ایک بوجھ محسوس ہونے لگے۔ دوسری طرف دلہن کی خواہش کے مطابق میک اپ اور عروسی ملبوسات پر بھی ایک کثیر رقم خرچ ہوئی۔

Published: undefined

میری رائے میں شادی ایک خوشی اور امید کا بندھن ہے، جس میں دو افراد ایک ایسے رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں جو بنی نوع انسان کی ارتقاء میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک نیا سفر جس کی ابتداء کو یاد گار اور خوب صورت بنانا ہر جوڑے کا حق ہے اور بیاہ شادی پر وسائل کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرنے میں بہ ظاہر کوئی حرج نہیں لیکن معاملات تب بگڑتے ہیں، جب توازن کو فراموش کر دیا جائے۔

Published: undefined

وہ بیش قیمت لباس جنہیں صرف چند گھنٹے کے لیے زیب تن کر کے فوٹو شوٹ کی رسم ادا کی گئی وہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صندوقوں میں بند پڑے رہیں گے اور وہ خطیر رقم جو ان کی خریداری پر صرف ہوئی بہ ظاہر ضائع ہو چکی ہے۔ صرف خاندان برادری میں اپنا بھرم رکھنے کے لیے پانی کی طرح بہائے گئے پیسے کے کہیں بہتر مصارف ہو سکتے تھے لیکن اس میں خواتین کی ضد اور انا آڑے آئی، جس کے سامنے گھر کے مرد خود کو بے بس پاتے ہیں۔ وہ پڑھی لکھی اور بہ ظاہر با شعور عورتیں جو زمانے کو بدل دینے کی خواہش رکھتی ہیں اس تقریب کو سادہ رکھنے کے فیصلے میں شامل کیوں نہ ہو سکیں۔

Published: undefined

یہ محض ایک خاندان کا قصہ نہیں ہے بل کہ، عمومی سماجی رویے کی عکاسی ہے۔ ایسے میں یہ جائزہ ضروری ہے کہ سیاسی طور پر درست رہنے کی فکر سے آزاد ہو کر ایک آزادانہ تجزیہ کیا جائے کہ، پاکستانی معاشرے میں عورت اور مرد کی سوچ میں اس قدر تضاد کیوں ہے اور صنفی تقسیم سے بچتے ہوئے کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے؟

Published: undefined

عورت اور مرد کو قدرت نے مختلف کردار تفویض کر دیے ہیں اور سماجی نمو کے لیے دونوں کا باہم مل کر اپنا اپنا کردار نبھانا ضروری ہے۔ ترقی پذیر معاشروں میں جہاں مرد کے ہاتھ معاشی وسائل کا کنٹرول ہے وہاں روایتی گھریلو فیصلوں اور اولاد کی تربیت پر عورت کا اختیار اسے ایک ایسی قوت دیتا ہے جس کا توڑ مردوں کے پاس نہیں۔ اگر یہ دونوں اصناف باہم پیکار رہیں تو ترقی کا وہ خواب جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ پورا ہو سکے گا؟

Published: undefined

فرسودہ روایات جن سے ہم سب جان چھڑوانا چاہتے ہیں ان سے بچا جا سکے گا ؟ نظریات کا ٹکراؤ کیوں کر کسی درمیانے راستے تک پہنچ پائے گا؟ سوچنے کا وقت یہی ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined