سماج

وراثت میں خواتین کا حصہ: پاکستانی سینیٹ نے بل پاس کر دیا

پاکستان کی سینیٹ نے وراثتی جائیداد میں عورت کے حصے سے متعلق تنازعات اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کا ایک بل پاس کیا ہے۔ کئی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ وراثتی جائیداد میں عورت کا برابر کا حق ہونا چاہیے۔

وراثت میں خواتین کا حصہ: سینیٹ نے بل پاس کر دیا
وراثت میں خواتین کا حصہ: سینیٹ نے بل پاس کر دیا 

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں اور جائیداد کے حوالے سے بھی گزشتہ برس کچھ قوانین بنائے گئے تھے، جن میں اب کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

بل کی ضرورت کیوں پڑی؟

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

یہ بل پیر کو وزارت انصاف و قانون کی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا۔ بل کے محرک سینیٹر جاوید عباسی نے اس بل کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پاکستان میں وراثتی جائیداد میں خواتین کے حق کے حوالے تنازعے اور مقدمات برسوں عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے بھی قانون سازی ہوئی ہے اور موجودہ بل نے انہی قوانین میں ترمیم کی ہے، جس کے مطابق محتسب اس بات کے پابند ہوں گے کہ وہ کسی بھی تنازعے کو ساٹھ دن میں طے کریں ورنہ وہ یہ مقدمہ مقامی عدالت میں بھیجیں، جہاں جج ساٹھ دن میں اس کا فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ قانون میں مقدمے کا فیصلہ کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، ''جس کی وجہ سے خواتین کو اپنا حصہ لینے کے لیے کئی برس تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب ہم نے ایک ٹائم فریم طے کیا ہے اور حکومت کو کہا ہے کہ وہ ایک اسپیشل جج ایسے مقدمات کے لیے مقرر کرے، جیسا کہ نیب میں خصوصی جج ہے، تاکہ ایسے مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد ہوجائے۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

لیکن کئی ناقدین اس بل کو خواتین کے لیے ناکافی قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق اس بل نے خواتین کے مساویانہ حصے پر کوئی بات نہیں کی۔ جاوید عباسی نے اس بات کی وضاحت کی کہ بل میں خواتین کے شرعی حصے کی بات کی گئی ہے، جو ملک کے لبرل حلقے کے خیال میں غیر مساویانہ ہے۔

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

جدید عہد میں کوئی جواز نہیں

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

جاوید عباسی اس شرعی حصے کی حمایت کرتے ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمں اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ وراثتی جائیداد سے متعلق تنازعات کے فیصلے کے لیے وقت کا تعین مثبت بات ہے لیکن حکومت کو آگے بڑھ کر وراثت میں عورت کے برابر حصے کی بات بھی کرنی چاہیے،''میرے خیال میں وراثت میں عورت کے غیر مساوی حصے کا تصور مذہبی سے زیادہ پدرسری ہے اور اگر پارلیمنٹ میں مساویانہ حصے کا کوئی قانون آتا ہے تو سارے جاگیردار، چاہے وہ مذہبی ہوں یا لبرلز، وہ اس کی بھرپور مخالفت کریں گے لیکن اس قانون کا جدید جمہوری دور میں کوئی جواز نہیں ہے، جہاں مرد اور عورت کی برابری بہت ضروری ہے۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں عورت پہلے ہی مظلوم ہے،''ضرورت تو اس امر کی ہے کہ عورت کو وراثتی جائیداد میں زیادہ حصہ ملے کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتی اور مالی طور پر خود کفیل بھی نہیں ہوتی۔ اگر زیادہ نہیں دے سکتے تو کم ازکم برابر کاحصہ تو دیں۔ اسے برابر کے حصے سے محروم کرنا اس کو مالی طور پر شدید نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

معروف سیاست دان اور سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر بھی اسد بٹ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ اس بل پر رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل پر سینیٹ میں بھرپور بحث ہونی چاہیے اور وراثتی جائیداد میں خواتین کا برابر کا حصہ ہونا چاہیے۔ خواتین کا غیر مساوی حصہ آئین اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہے۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

آدھا حصہ بھی نہیں ملتا

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی سابق سربراہ نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر تو خواتین کو وراثت میں مساویانہ حق ملنا چاہیے،''لیکن ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں، جہاں کے قوانین کو ماننا ہمارے لیے ضروری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ آدھا حصہ بھی خواتین کو نہیں ملتا۔ عورت کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے یا اسے غیر شادی شدہ رکھا جاتا ہے تاکہ جائیداد میں اس کو آدھا حصہ بھی نہ ملے۔ تو اس مسئلے پر قانون سازی سے پہلے بڑے پیمانے پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ارکان اسمبلی اس غیر مساویانہ حصے کے حوالے سے اس لیے بات نہیں کرتی کیونکہ ان کے لاشعور میں کہیں رجعت پسند قوتوں کا خوف بیٹھا ہوا ہے،''اگر اس پر بات ہوگی تو رجعت پسند قوتوں کی طرف سے بھرپور مخالفت آئے گی تو شاید اس خوف سے خواتین ارکان اسمبلی نے اس مسئلے کو نہیں اٹھایا۔ تاہم ملک کے لبرل حلقے اس غیر مساویانہ تقسیم کی مخالفت کرتے ہیں، جو ان کے خیال میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر کے خلاف ہے۔‘‘

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 20 Jan 2021, 7:40 AM IST