اس ویڈیو پر مختلف پاکستانی سوشل میڈیا صارفین طنزیہ تبصرے بھی کر رہے ہیں، تاہم بعض صارف اس خیالیے کو رد بھی نہیں کرتے۔ زمین گردش میں ہے یا ساکن، صدیوں پہلے یہ سوال یقیناﹰ انسان کے لیے معمہ تھا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں یونانی ریاضی دان آریسٹرچوس نے پہلی بار ایک خاکہ تیار کیا، جس میں سورج کو کائنات کا مرکز گردانا گیا تھا جب کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی تھی۔ اس کے بعد بھی مختلف ادوار میں اس موضوع پر بحثیں ہوتی رہیں۔ چار قبل مسیح میں تاہم ارسطو نے اس نظریے کو 'مشاہدے کے برخلاف‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ زمین حرکت کرتی تو نظارہ کرنے والے کو حرکت محسوس ہو جاتی اور حرکت کی وجہ سے زمین پر ہوا فقط ایک جہت میں اور مسلسل ہونا چاہیے تھی۔ ارسطو کا خیال تھا کہ زمین گول نہیں بلکہ فلیٹ (ایک ہم وار اور سیدھی سطح) ہے اور کائنات کا مرکز ہے اور چاند سورج، ستارے اور تمام دیگر اجرامِ فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔
Published: undefined
زمین کے گرد ایک لاکھ چکر مکمل
Published: undefined
کومٹ پر آرگینک مالیکیولز کی موجودگی
Published: undefined
یہ نظریہ ایک طویل عرصے تک قبول کیا جاتا تھا۔ تاہم مسلم سائنس دانوں نے پہلی بار اس نظریے کو باقاعدہ طور پر رد اور زمین کی گردش کو دسویں صدی میں تسلیم کیا۔ مسلم ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی نے کہا تھا کہ ابوسعید السجزی کی تخلیق ایسٹرولیب (استارہ یاف) اصل میں زمین کے گردش کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، نہ کہ آسمان کی گردش کے لحاظ سے۔ اس کے بعد طوسی اور چند دیگر مسلم سائنس دانوں نے بھی زمین کی گردش پر بحث کی۔
Published: undefined
یورپ میں قرونِ وسطیٰ میں تاہم کئی ماہرین فلکیات ارسطو کے ہی نظریے کو درست سمجھتے رہے۔ ارسطو کے نظریے سے پہلی بار واضح اختلاف ماہر ریاضی نیکولاؤس کوپرنیوس نے سولہویں صدی میں کیا۔ انہوں نے اس کے لیے ہولوسینٹرک کا استعمال کیا، جس میں زمین کی گردش کو ناپا گیا تھا۔
Published: undefined
سترہویں صدی کے آغاز پر ویلیم گلبرٹ نے زمینی کی مقناطیسی قوت کے تناظر میں زمین کی گردش کو پرزور انداز سے تسلیم کیا اور اسے ایک طرح سے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ بعد میں کیپلر اور گیلیلیو نے بھی اس موضوع پر مزید تحقیقی اور تجرباتی کام کیا۔
Published: undefined
لیکن یہ معاملہ اس وقت ایک طرح سے مکمل طور پر حل ہو گیا، جب نیوٹن نے تجاذبی قانون واضح کیا۔
Published: undefined
تجاذب کی قوت زمین کی گردش کو نہایت عمدہ طریقے سے واضح کرتی ہے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق زمین اگر سورج کے گرد تیز رفتاری سے گردش نہ کرتی، تو سورج میں جا گرتی۔ تجاذب کا یہ قانون سورج اور زمین کے گرد مرکز مائل قوت اور مرکز گریز قوت کو بھی تفصیلی انداز سے واضح کرتا ہے۔
Published: undefined
یہ بات واضح رہے کہ نیوٹن نے تجاذب کی قوت کی ریاضی کی مدد جانچ کے لیے کلیہ تو لکھ ڈالا، تاہم انہیں بھی اس تجاذب پیدا ہونے کی وجہ کا علم نہیں تھا۔ تجاذب کی قوت پیدا کیوں ہوتی ہے، اس کی وضاحت بیسویں صدی میں آئن اسٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت کی مدد سے کی تھی۔
Published: undefined
زمین کی گردش سے متعلق ابہام اور سوالات تو ایک مدت پہلے ختم بھی ہو چکے۔ اکیسویں صدی میں جب انسان چاند پر کئی مشن بھیج چکا، زمین کے باہر مدار میں بین الاقوامی خلائی مرکز محو پرواز ہے۔ درجنوں خلائی مشن اب تک مختلف سیاروں کی جانب بھیجے جا چکے ہیں۔ زمین کی گردش کی وجہ سے وقت اور دنوں کا حساب طے ہے۔ گردش ہی کی بنا پر اگلے کئی دہائیوں بلکہ صدیوں میں چاند اور سورج گرہن تک کی تاریخیں موجود ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ کس طرح زمین کو ساکن سمجھا جا سکتا ہے؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined