سماج

پاکستانی میڈیا کی مذہبی اقلیتوں میں عدم دلچسپی

مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتا ہوا اظہار نفرت پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اگر اس کے خلاف کوئی حکمت عملی طے نہ کی تو مذہبی اور شخصی دونوں آزادیاں معدوم ہو جائیں گی۔

پاکستانی میڈیا کی مذہبی اقلیتوں میں عدم دلچسپی
پاکستانی میڈیا کی مذہبی اقلیتوں میں عدم دلچسپی 

اس موضوع پر اسلام آباد میں ہونے والی ایک دلچسپ کانفرنس میں اتفاق رائے دیکھا گیا۔ کانفرنس میں دو تحقیقی رپورٹیں پیش کی گئیں جن میں چونکا دینے والے انکشافات تھے۔ پہلی تحقیق میں ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشن اور اخبارات کے حالیہ مواد کا شماریاتی جائزہ تھا جس میں یہ جانچا گیا کہ ملکی میڈیا پاکستانی مذہبی اقلیتوں کو کتنی اور کس قسم کی کوریج دیتا ہے۔

Published: undefined

پاکستانی سماجی ترقی کے ادارے IRADA کی اس تحقیق کے مطابق پرنٹ میڈیا میں مذہبی اقلیتوں کی سب سے زیادہ کوریج ہوتی ہے جبکہ ٹی وی اور ریڈیو میں سب سے کم یا نہ ہونے کے برابر۔ تحقیق کے مطابق 3000 خبروں میں سے صرف 53 خبریں اقلیتوں کے بارے میں تھیں۔ ان میں سے تقریباﹰ پینسٹھ فیصد ہندوؤں اور مسیحی برادری کے بارے میں تھیں، چند سکھ اور کیلاش برادریوں کے بارے میں تھیں جبکہ دیگر مذہبی اقلیتوں بشمول احمدی، بدھ مت، بہائی اور پارسیوں کے بارے میں کوئی کوریج نہیں تھی۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ جو تھوڑی بہت کوریج اقلیتوں کو ملی اس میں صرف ایک چوتھائی خبریں ایسی تھیں جو براہ راست کسی نہ کسی اقلیت پر فوکس کر رہی تھیں جبکہ تین چوتھائی میں اقلیتوں کا صرف بلاواسطہ ذکر تھا۔

Published: undefined

اس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ زیادہ تر خبروں کا موضوع توہین مذہب تھا اور اس موضوع پر زیادہ تر خبروں کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔ اس کےعلاوہ اگر کوئی موضوع اقلیتوں کے حوالے سے ہوتا ہے، تو وہ ان کے مذہبی تہوار تک ہی محدود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر پانچ میں سے چار خبریں، جن میں پاکستانی میڈیا اقلیتوں کا ذکر کرتا ہے، ان میں سے کسی بھی اقلیتی نمائندے کی نہ آواز یا رائے شامل ہوتی ہے اور نہ اقلیتوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔ یعنی ان کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا جبکہ زیادہ تر خبروں میں ان کو بے چارگی کے پیرائے میں یا کسی متنازعہ پیرائے میں دکھایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ان نتائج پر جہاں سب کا اتفاق تھا، وہاں مختلف آراء بھی پائی گئیں۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی ریاست حقوق کے پیرائے میں معاملات پر عدم توجہی کا مظاہرہ کرتی ہے اور سکیورٹی اسٹیٹ ہونے کے ناطے عوام کی فلاح کو پس پشت ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دیگر افراد کے حقوق بھی پس منظر میں چلے جاتے ہیں، وہیں پر مذہبی اقلیتیں بھی خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں۔

Published: undefined

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں دانش کے بجائے جذباتیت کا غلبہ پایا جاتا ہے جس کی بنا پر اقلیتیں معاشرے اور ریاست دونوں کی ترجیحات میں اپنے آپ کو غائب پاتی ہیں۔ ان کے بقول اس بات کا مقابلہ صرف اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں دانشوروں کے ڈھانچے اور روایت کو فروغ دیا جائے اور مضبوط کیا جائے جو کہ اظہار رائے کی آزادی کے بغیر ناممکن ہے۔

Published: undefined

پیٹر جیکب نے، جو پیپلز کمیشن فار مائناریٹیز کے چیئرپرسن ہیں، کہا کہ مین اسڑیم میڈیا اقلیتوں کے مفادات کو جگہ نہیں دیتا اور جب کچھ جگہ پانے کے لیے اقلیتیں آن لائن جاتی ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں، تو تحقیر اور نفرت وہاں بھی ان کا تعاقب کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل میڈیا سے متعلق آگہی اور بہتر سماجی جامعیت میں ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے سندھ کمیشن برائے حقوق نسواں کی چیئرپرسن نزہت شیریں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کو جن مسائل کا سوشل میڈیا پر سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی خواتین کے خلاف امتیاز دگنا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کو اپنی خواتین کو آگے لانا چاہیے تاکہ اقلیتوں کے بارے مں جو تھوڑی بہت میڈیا کوریج دیکھنے میں آتی ہے، اسے صنفی نقطہء نظر سے زیادہ بہتر اور متنوع بھی بنایا جا سکے۔

Published: undefined

سکھ برادری کے ایک فعال سماجی کارکن راجیش سنگھ ٹونی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہمیں اپنے ملکی میڈیا سے گلہ ہے کہ وہ ہمیں محض مذہبی اقلیتوں کے طور پر ہی کیوں دیکھتے ہیں، بطور انسان اور معاشرے کے ایک پسے ہوئے طبقے کے طور پر کیوں نہیں دیکھتے؟ اگر میڈیا عوام کے مفادات کا محافظ ہے، تو پھر پالیسی سازوں کو رپورٹنگ کر کے بتائے کہ اقلیتوں کے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے نہ ملنے کی وجہ سے ہمارے بچے برابر اقتصادی مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

نامور دانشور اور تجزیہ کار ڈاکٹر ناظر محمود کا کہنا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کو میڈیا میں بہتر نمائندگی دینے کا ایک فعال ذریعہ یہ ہو گا کہ میڈیا میں کم ازکم پانچ فیصد نیوز سٹاف کا تعلق مذہبی اقلیتوں سے ہو تاکہ اقلیتوں سے متعلق میڈیا کوریج میں اعتدال آ سکے۔

Published: undefined

سینئر صحافی اور تجزیہ کار وجاہت مسعود، جن کی بے باک گفتگو سب کو پسند آئی، نے کہا کہ دانشور حلقوں کی جانب سے اگر اقلیتی برادریوں کے حقوق کا تحفظ سنجیدگی سے نہ کیا گیا، تو ان کے اپنے حقوق بھی کھو جائیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بہتر یہ ہے کہ سب مل کر ریاست اور حکومت پر زور دیں کہ ملک میں جامعیت کو پالیسی کے طور پر فروغ دیا جائے۔‘‘

Published: undefined

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ ایک سنجیدہ موضوع ہے اور اس کا حل پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسی ریسرچ کے نتائج کی روشنی میں شراکت داروں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مختلف شراکت داروں پر مشتمل ایک نیٹ ورک بنایا جانا چاہیے، جس میں ایک ہمہ جہت حکمت عملی کی بنیاد پر ایسے اقدامات شامل ہوں، جن کے نتیجے میں اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنا کر مذہبی اقلیتوں کی آوازیں بھی قومی دھارے میں شامل کی جا سکیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined