سماج

کچھ افغانوں کے لیے رعایت: حکومتی فیصلے کی پذیرائی

حکومت پاکستان کی طرف سے ان افغان مہاجرین کے مدت قیام میں توسیع کر دی گئی ہے جو مغربی ممالک میں آباد کاری کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔ اب وہ 31 دسمبر کی بجائے 29 فروری 2024 ء تک ملک میں رہ سکتے ہیں۔

کچھ افغانوں کے لیے رعایت: حکومتی فیصلے کی پذیرائی
کچھ افغانوں کے لیے رعایت: حکومتی فیصلے کی پذیرائی 

وفاقی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے افغان مہاجرین جنہوں نے ماضی میں مغربی حکومتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور سابق افغان حکومت کے لیے کام کیا ہے اور وہ دوسرے ممالک میں ریسیٹلمنٹ کے لیے انتظار کر رہے ہیں ان کو 29 فروری 2024 ء تک قانونی کاغذات حاصل کرنے کی مہلت دے دی جائے۔ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اس دوران یا تو وہ قانونی کاغذات حاصل کریں یا پھر اپنی ریسیٹلمنٹ کا انتظام کریں۔

Published: undefined

وفاقی حکومت کا فیصلہ

بدھ کو اسلام آباد میں دو دیگر وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مرتضٰی سولنگی نے کہا کہ نئے اصول و ضوابط کے مطابق وہافغان شہری جن کو کسی تیسرے ملک جانا ہے اور جن کے پاس قانونی کاغذات نہیں ہیں ہے ان پر 400 ڈالر کا جرمانہ لگایا جائے گا۔ مرتضی سولنگی نے مذید کہا، '' یہ جرمانہ پہلے اٹھ سو ڈالر تھا۔ یہ جرمانہ قانونی مدت سے زیادہ قیام کرنے پر لگایا جائے گا۔ مہلت کی مدت گزرنے کے بعد 100 ڈالر فی مہینہ جرمانہ لگایا جائے گا، جس کی زیادہ سے زیادہ حد 800 ڈالرز ہوگی۔‘‘

Published: undefined

مثبت فیصلہ اوراس کی ستائش

حکومت کے اس اقدام کو کئی حلقوں میں سراہا جا رہا ہے اور وہافغان مہاجرین جنہیں امریکہ، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ اور دوسرے ممالک میں آباد ہونا ہے انہوں نے بھی اس حکومتی اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ کابل سے تعلق رکھنے والے احسام الدین دلاور، جو اب سلام آباد میں مقیم ہیں اور دو سال سے امریکہ جانے کے منتظر ہیں، کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے ہزاروں افغان مہاجرین نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ ایک بہت مثبت فیصلہ ہے ہم شکر گزار ہیں حکومت پاکستان کے کہ اس نے ہماری مجبوریوں کو سمجھا کیونکہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر مغربی ممالک میں ری سیٹلمنٹ اتنی جلدی نہیں ہو سکتا۔‘‘

Published: undefined

احسام الدین دلاور کے مطابق افغانوں کو پریشانی یہ ہے کہ کرسمس اور نئے سال کی چھٹیاں آرہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں امریکہ اور دوسرے مغرب ممالک کی حکومتوں سے اپیل کروں گا کہ وہ 29 فروری تک ان تمام افغان مہاجرین کو ری سیٹلمنٹ کے لیے پاکستان سے نکالیں تاکہ ہمیں اضافی فیس نہ دینا پڑے اور نہ ہی ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘

Published: undefined

افغانستان کے صوبے بغلان سے تعلق رکھنے والے احمد خالد آزاد کا کہنا ہے کہ حکومت کو پولیس کو بھی ہدایات جاری کرنی چاہیے کیونکہ پولیس کئی علاقوں میں اب تک افغان لوگوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں افغانستان میں ایک بینک میں کام کر رہا تھا اور بحالت مجبوری یہاں پر آیا ہوں۔ ہم حکومت کے اس اقدام کو بہت سراہتے ہیں لیکن افغانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ پولیس کو سختی سے ہدایت جاری کرے کہ یا ہمیں کچھ ایسے کاغذات دے دے جو ہم پولیس کو دکھائیں اور وہ ہمیں تنگ نہ کریں۔‘‘

Published: undefined

کابل یونیورسٹی کی سابق پروفیسر نرگس مومند حسن زئی کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے یہ قدم بہت تاخیر سے اٹھایا لیکن پھر بھی یہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ حکومت پاکستان نے بالاآخر افغانوں کی مصیبتوں کا احساس کیا اور کم از کم ان افغانوں کو ریلیف دی جو دوسرے ممالک جانے کے لیے پاکستان میں رکے ہوئے ہیں۔‘‘

Published: undefined

نرگس مومند حسن زئی کے مطابق بہت سارے افغان ایسے بھی ہیں جو صرف اپنی بیٹیوں کو پڑھانے کے لیے پاکستان میں رکے ہوئے تھے۔ ''لہذا اگر ان افغان مہاجرین کو بھی ریلیف مل سکے جن کی بیٹیاں پاکستان میں پڑھ رہی ہیں تو یہ افغانوں کے لیے ایک بہت مثبت قدم ہوگا کیونکہ تعلیم انسانی ھا بنیادی حق ہے۔‘‘

Published: undefined

پاکستان کی افغان بے دخلی پالیسی کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ہدف تنقید بنایا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں حکومت سے مزید اقدامات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی اقدام مثبت ہے لیکن مہاجرین کے حوالے سے مجموعی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہت سارے ایسے افغان مہاجرین ہیں جن کے اپنے قانونی کاغذات ہیں لیکن قانون سے لاعلمی کی بنیاد پر انہوں نے اپنے بچوں کے کاغذات نہیں بنوائے اور پاکستان نے ان بچوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ان کے والدین کو بھی ساتھ جانا پڑا۔ اس طرح کی پالیسی انتہائی غیر منصفانہ ہے، جس پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔‘‘

Published: undefined

اسد بٹ کے مطابق اس کے علاوہ حکومت کوافغان فنکاروں سیاسی کارکنان اور این جی او میں کام کرنے والے افغان ورکرز کو بھی سیاسی پناہ دینی چاہیے۔ '' لیکن حکومت ان لوگوں کو بھی افغانستان واپس بھیج رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کو قاتلوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ افغان طالبان آرٹ، میوزک، فلم اور انسانی حقوق کے سخت دشمن ہیں اور جو لوگ ان کے لیے کام کرتے ہیں ان کو وہ سخت دشمن سمجھتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined