پاکستان میں اس وقت ہر طرح کی اشیاء کی کمی ہے۔ گھروں میں کھانا پکانے یا چھوٹے کارخانے چلانے کے لیے گیس نہیں ہے اور بجلی کی بندش اتنی کثرت سے ہوتی ہے کہ معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
Published: undefined
ایک گھریلو خاتون مسز وسیم نے کراچی میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بجلی کی حالیہ بندش نے ہماری زندگیوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ ہم اپنے روزمرہ کے کام کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہوں۔‘‘
Published: undefined
26 جنوری کو پاکستانی روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 9.6 فیصد گر چُکی ہے، جو دو دہائیوں میں ایک دن میں ہونے والی سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ ڈالر کا بحران اتنا شدید ہے کہ خوراک اور طبی سامان لے جانے والے سینکڑوں غیر ملکی کنٹینرز ہفتوں سے بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ حکام کے پاس اس میں موجود سامان کو واگزار کرنے کے لیے ادائیگی کی رقم نہیں ہے۔
Published: undefined
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو اب ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اُسے ڈیفالٹ یعنی دیوالیے سے بچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو اپنے قرضے کی تجدید پر راضی کرنا ہے۔
Published: undefined
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''میرے خیال میں ہمیں آئی ایم ایف کی قسط جلد مل جائے گی کیونکہ حکومت نے ایندھن کی قیمتیں بڑھا دی ہیں، نئے ٹیکس لگائے ہیں، اور مارکیٹ کو ڈالر کے نرخ طے کرنے کی اجازت دی ہے۔‘‘
Published: undefined
سابق وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا،''آئی ایم ایف کے قرض سے ادائیگی کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ ہی مہنگائی 40 تا 50 فیصد تک بڑھے گی۔ سب سے زیادہ مشکلات کا شکارعوام ہوں گے۔ پاکستان میں پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 30 سے 40 فیصد کے قریب ہے۔‘‘ سلمان شاہ کے بقول ''ڈیفالٹ‘‘ کا طوفان سب کچھ مٹا دے گا۔ انہوں نے کہا،''گرچہ پاکستاناورسری لنکا میں مماثلتیں پائی جاتی ہیں تاہم پاکستان سری لنکا کے معاشی بحران کے راستے پر اُس صورت میں گامزن ہوگا جب اُسے آئی ایم ایف سے قسطیں نہ ملیں۔‘‘
Published: undefined
پاکستانی معیشت کے وجود کو خطرہ لاحق ہے لیکن اس سنگین بحران سے نمٹنے پر توجہ دینے کی بجائے، اسلامی جمہوریہ کے سیاست دانوں کے مابین رسہ کشی اس بات کی چل رہی ہے کہ حکومت کون کرے گا۔
Published: undefined
گزشتہ سال اپریل میں سابق وزیراعظمعمران خان کی برطرفی کے بعد سے پاکستان کو گہرے سیاسی اور آئینی بحران کا سامنا ہے۔ عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے زریعے اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک طرف امریکہ پر الزام لگایاکہ وہ پاکستان میں ''حکومت کی تبدیلی‘‘ کا منصوبہ بنا رہا ہے، اور دوسری جانب وہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور طاقتور فوجی جرنیلوں کے ساتھ متصادم ہیں۔
Published: undefined
سابق کرکٹ اسٹار عمران خان سیاستدانوں سے سیاسی بحران کے حل کے لیے قبل از وقت انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جکہ متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ معاشی بحران پہلے معیشت کو ٹھیک کرنے کا متقاضی ہے نہ کہ الیکشن کے انعقاد کا۔
Published: undefined
ایک سیاسی تجزیہ کار ضیاء الرحمٰن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ملک کی معاشی صورتحال بہت خراب ہے اور ہمارے پاس پیسہ ختم ہو چکا ہے۔ عام انتخابات کا انعقاد ایک مہنگا معاملہ ہے، اور میرے خیال میں پاکستان اس وقت اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘ ضیاء الرحمٰن نے مزید کہا،''آگے بڑھنے کا مثالی راستہ یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ، بشمول سیاستدانوں اور فوج کے اعلیٰ افسران ، ایک ساتھ بیٹھیں اور ایک ایسی حکومت پر متفق ہوں جو قومی اتفاق رائے سے اقتدار میں آئے۔ ایسی حکومت کا بنیادی کام ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا ہونا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کے چند سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ قومی مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سابق وزیر اعظم خان ہیں، جن پر ناقدین ''غیر لچکدار‘‘ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔
Published: undefined
ایک سینیئر صحافی غازی صلاح الدین کہتے ہیں، ''خان سیاست کو کھیل کے طور پر دیکھتے ہیں، جہاں ایک کھلاڑی کا واحد مقصد کسی بھی قیمت پر حریف کو شکست دینا ہوتا ہے۔ سیاست اس طرح نہیں چلتی۔ سیاست دانوں کو ہر کسی کے ساتھ، یہاں تک کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی تعلق روا رکھ کر چلنا ہوتا ہے۔‘‘
Published: undefined
پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے الگ ہونے والے ایک دھڑے نے قبول کی ہے۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان کا معاشی بحران خطے کے لیے ایک بڑا سکیورٹی خطرہ کیوں ہے۔
Published: undefined
تجزیہ کار ضیاء الرحمٰن نے کہا،''پاکستان کے پاس سکیورٹی چیلنج سے نمٹنے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ یہ ملک کے استحکام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔‘‘ماہرین پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا سری لنکا سے موازنہ کرتے ہیں۔ سری لنکا میں گزشتہ برس ایندھن کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف زبردست حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مظاہرین نے پارلیمان اور دیگر سرکاری عمارتوں پر دھاوا بول دیا تھا۔ حالات یہاں تک خراب ہوئے کہ سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔
Published: undefined
پاکستانی شہری بھی اپنی حکمران اشرافیہ سے اس حد تک مایوس ہو چُکے ہیں کہ وہ بھی بھرپور انداز سے سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز