اسلام آباد کی ایک سیشن عدالت نے عثمان مرزا کے چار ساتھیوں اور شریک ملزمان حافظ عطا الرحمان، ادارس قیوم بٹ، محب بنگش اور فرحان شاہین کو بھی عمر قید کی سزا سنائی ہے جبکہ دو دیگر افراد عمر بلال اور ریحان حسن مغل کو بری کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی اخبار ڈان کے مطابق یہ فیصلہ سیشن جج عطاء ربانی نے سنایا۔
Published: undefined
ڈپٹی کمیشنر اسلام آباد محمد حمزہ شفقات نے اس حوالے سے ٹویٹ میں کہا،'' ایڈیشنل سیشن عدالت نے عثمان مرزا اور اس کے چار ساتھیوں کو ایک جوڑے کو ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ اس جوڑے نے اپنے بیان کو واپس لے لیا تھا لیکن حکومت نے اس کیس کی کارروائی کو جاری رکھا۔''
Published: undefined
ڈان اخبار کے مطابق عدالتی حکم نامے میں لکھا گیا ہے عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں کو پینل کوڈ کے سیکشین 354 اے کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔
Published: undefined
اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی کارکن جبران ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''عثمان مرزا اور شریک ملزمان کی سزا ایک خوش آئند فیصلہ ہے کیوں کہ اس جرم نے عوامی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا تھا اور یہ مقدمہ ہمارے نظام انصاف کے لیے ایک اور لٹمس ٹیسٹ بن گیا تھا۔''
Published: undefined
عثمان مرزا اور اس کے ساتھی ایک گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں زبردستی داخل ہو گئے تھے جہاں انہوں نے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو ایک ساتھ تنہا ہونے کے باعث ہراساں کیا۔ ان افراد نے اس جوڑے کو گن پوائنٹ پر بٹھائے رکھا، ان سے زبردستی کپڑے اتروائے اور اس سارے واقعہ کی فلم بندی کی۔ اس واقعہ کی ویڈیو گزشتہ سال جولائی میں لیک ہو گئی جس پراس جوڑے کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
Published: undefined
جران ناصر کہتے ہیں اگرچہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے ریاست کے عزم کو سراہا جانا چاہیے، لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کیس میں متاثرہ خاتون کو ریاست، معاشرے اور نظام انصاف کی جانب سے اعتماد حاصل نہیں ہوا اور اسے اپنے بیان کو واپس لینا پڑا۔ جبران کے مطابق یہ فیصلہ صرف اس سارے واقعہ کی ویڈیو منظر عام پر آنے اور اس کے قومی خبر بن جانے کے باعث دیا گیا ہے۔'' ویڈیو کا منظر عام پر آنا ظاہر کرتا ہے کہ متاثرین نے کرمنل جسسٹس سسٹم پر بھروسہ نہیں کیا اور وہ عثمان مرزا اور دیگر غنڈوں کے ہاتھوں کئی ہفتوں خاموشی سے زیادتی سہتے رہے۔''
Published: undefined
صحافی فریحہ ادریس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، ریاست اس معاملے میں فریق بنی، امید ہے کہ مجرمان کیفر کردار تک پہنچیں گے اور اعلیٰ عدالتوں سے مجرموں کو ریلیف نہیں ملے گا۔''
Published: undefined
واضح رہے کہ جب متاثرہ جوڑے نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا تو پارلیمانی سکریٹری ملیکہ بخاری کا کہنا تھا کہ ریاست اس کیس کو لڑے گی کیوں کہ ویڈیو اور فرانزک ثبوت موجود ہیں۔پاکستان میں حقوق کی سرگرم کارکن نایاب جان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بہت امید افزاء ہے جس سے خواتین کی حوصلہ افزائی ہو گی لیکن یہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نایاب کے مطابق، ''جب تک کوئی چیز منظرعام پر نہیں آتی، ہائی پروفائل نہیں بنتی، اس پر مسلسل میڈیا کی نظر نہیں ہوتی تب تک ایسے نتائج سامنے نہیں آتے۔'' وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی امید کرنی چاہیے جہاں ایک کیس کو اتنا ہائی پروفائل ہوئے بغیر انصاف مل سکے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined