پاکستانی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جو صنفی امتیاز کی بنیاد پر ہو یا جس سے کام کے لیے غیر سازگار ماحول پیدا ہو، وہ کام کی جگہ پر ہراسگی کے خلاف خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والے ترمیمی ایکٹ کے ہی دائرہ کار میں آئے گا، جو اسی سال منظور ہوا تھا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف جنس کی بنیاد پر مساوی مواقع نہ فراہم کرنا یا کسی کی قابلیتوں کو صرف جنس کی بنیاد پر ہدف تنقید بنانا بھی اس ایکٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ فیصلہ سنانے والی دو رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی جبکہ بینچ کے دوسرے رکن جسٹس منصور علی شاہ تھے۔
Published: undefined
سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ہراسگی کے واقعات کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے۔ تاہم ان کے خیال میں ہراسگی کے واقعات کو مکمل طور پر روکنے کے لیے بہت سارے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین بنا لیے جاتے ہیں اور ادارے بھی بنا لیے جاتے ہیں لیکن ان اداروں کو وسائل فراہم نہیں کیے جاتے۔ اس کی ایک مثال نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق ہے، جس میں افرادی قوت کی بھی کمی ہے اور دوسرے وسائل کی بھی۔‘‘
Published: undefined
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت قوانین تو بنا لیتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرتی۔ اسد بٹ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ''ہراسگی کے حوالے سے حکومت نے قانون بنایا کہ تمام ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے کام کی جگہ ہراسگی کے خلاف ایک کمیٹی بنائیں گی۔ اگر کسی ملازم، خصوصاً خاتون ملازم، کو کسی بھی طرح کی ہراسمنٹ کا سامنا ہو، تو وہ اس کمیٹی میں شکایت درج کرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں نے یہ کمیٹی ہی نہیں بنائی۔‘‘
Published: undefined
رکن قومی اسمبلی کشور زہرا کا بھی یہی خیال ہے کہ ہراسمنٹ کو روکنے کے لیے قوانین پر عملدرآمد ضروری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''پولیس اور عدالتی اداروں میں اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کے کئی اداروں، بشمول عدالتوں میں خواتین کی موجودگی یا نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ایک مثال ملکی سپریم کورٹ ہی ہے، جہاں صرف ایک خاتون جج ہیں۔ پولیس میں بھی ایک بڑی تعداد مردوں کی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ میں بھی خواتین کی نمائندگی ان کی آبادی میں شرح کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مہناز رحمٰن کا کہنا ہے کہ مختلف اداروں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں ہراسگی کے خلاف بنائے جانے والے محتسب کے ادارے پر بھی تحفظات ہیں۔ قانون کی رو سے اس ادارے کا سربراہ مرد بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس ادارے کا سربراہ کسی خاتون کو ہونا چاہیے۔ چاہے وہ خاتون جج ہو یا کوئی اور۔‘‘
Published: undefined
انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق جون سن 2016 میں پی ٹی وی کی ایک ملازمہ سمیت چار دیگر خاتون اینکرز نے ادارے کے ایک مرد افسر کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ مقدمے میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ مذکورہ افسر خواتین کو ہراساں کرتا ہے۔ وہ ان پر جملے کستا ہے، کھانے پر لے جانے کی پیشکش کرتا ہے، ہوٹل میں کمرہ بک کرانے کا کہتا ہے، بن بلائے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنی پیشکوں کو ماننے کے لیے مجبور کرتا ہے جبکہ انکار پر دھمکیاں دیتا ہے۔
Published: undefined
شکایت کنندہ نے اس حوالے سے پہلے وفاقی محتسب سے رابطہ کیا، جہاں وفاقی محتسب نے اس افسر کے خلاف فیصلہ دیا لیکن سزا معمولی دی گئی۔ مذکورہ افسر اور شکایت کنندہ دونوں نے سن 2016 میں صدر مملکت سے رجوع کیا، جس پر اس افسر کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا۔ پھر یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا، جہاں عدالت نے وفاقی محتسب کا فیصلہ برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس اس افسر کی سزا میں اضافہ کیا اور اسے ہرجانہ ادا کرنے کا بھی کہا گیا۔
Published: undefined
مہناز رحمٰن کے مطابق ایسے مقدمات کے فیصلے وقت پر ہونے چاہییں۔ ''یہ مقدمہ سن 2016 میں درج ہوا تھا اور اس کا فیصلہ اب سن 2022 میں آیا ہے۔ لہذا ہمیں ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں کو اسٹاف اور وسائل فراہم کیے جائیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز