سماج

پاکستانی مذہبی گروپ جنسی تبدیلی کے قانون میں ترمیم کے خواہش مند

پاکستان میں مختلف مذہبی گروہ اور سیاسی جماعتیں جنسی تبدیلی کے ملکی قانون کو ہم جنسی پرستی کی حوصلہ افزائی کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ان کے مطابق اس قانون میں ترمیم کی جانا چاہیے کیونکہ یہ’غیر اسلامی‘ ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس  

مسلم اکثریتی پاکستان کی قومی پارلیمان کے ایوان بالا میں ایک ایسا مسودہ قانون پیش کیا جا چکا ہے، جس کے ذریعے شہریوں کے لیے جنس کی تبدیلی کے طبی عمل کو مشکل بنانا مقصود ہے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے حال ہی میں ملکی سینیٹ میں ایک ایسا مسودہ پیش کیا گیا، جو 2018ء میں منظور کردہ ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے قانون میں ترمیم سے متعلق ہے۔

Published: undefined

اس مذہبی سیاسی جماعت کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی شہری کو جنس کی تبدیلی کی اجازت دینے کے لیے علاقائی طبی بورڈ قائم کیا جانا چاہیے۔ اس مسودے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی پاکستانی کو غیر واضح صنفی تخصیص یا نفسیاتی مسائل کی بنیاد پر جنسی اعضاء کی سرجری کی صورت میں اس کی صنف کے نئے سرے سے تعین کی اجازت نہیں ملنا چاہیے۔

Published: undefined

اب تک کی قانونی صورت حال

پاکستان میں اب تک نافذ قانون کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تمام سرکاری محکموں میں اپنی اسی صنف کا اندراج کرا سکتے ہیں، جس صنف کا حامل وہ خود کو سمجھتے ہوں۔

Published: undefined

اس کی مخالفت کرتے ہوئے جماعت اسلامی کا کہنا یہ ہے کہ اس قانون کی موجودہ شکل کے تحت یہ امکان بھی ہے کہ ایک ہی صنف کے افراد کی آپس میں شادیوں کو قانونی تحفظ مل جائے۔ ساتھ ہی اس قدامت پسند مذہبی سیاسی جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی فرد اپنی حیاتیاتی شناخت اور ساخت کے بجائے صرف اس بنیاد پر بھی خود کو مرد یا عورت کے طور پر رجسٹر کرا سکتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر خود کو کیا سمجھتا ہے۔

Published: undefined

جماعت اسلامی کی تجویز

اس صورت حال کے تدارک کے لیے پاکستان کی اس مذہبی سیاسی جماعت کی تجویز یہ ہے کہ کسی بھی شہری کی آپریشن کے ذریعے تبدیلی جنس سے پہلے اس کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے ضلعی سطح پر ایسے میڈیکل بورڈ بنائے جانا چاہییں، جو کئی ارکان پر مشتمل ہوں۔

Published: undefined

جماعت اسلامی کے مطابق ایسے بورڈز میں ایک ڈاکٹر، ایک ماہر نفسیات، ایک مرد سرجن، ایک خاتون سرجن اور کوئی نہ کوئی چیف میڈیکل افسر بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ یہ اجازت دینے میں کسی غلطی کا احتمال نہ رہے کہ آیا کسی فرد کو اپنی جنس تبدیل کرانے کی اجازت ملنا چاہیے۔

Published: undefined

'غیر اسلامی عمل‘

جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں تبدیلی جنس کا اب تک مروجہ قانون قرآن اور اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ پاکستان کی انسانی حقوق کی خاتون وزیر شیریں مزاری نے جماعت اسلامی کی طرف سے تجویز کردہ ترمیمی بل کی مخالفت کی ہے۔ مزاری کہتی ہیں کہ موجودہ قانون نے ٹرانس جینڈر افراد کو وہ شناخت دی ہے، جس کا انہیں باقاعدہ حق حاصل ہے جبکہ ترمیمی مسودہ قانون میں ایسے ٹرانس جینڈر افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

Published: undefined

پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق شیریں مزاری نے کہا، ''موجودہ قانون میں کسی ترمیم کی کوئی ضرورت اس لیے نہیں کہ اب تک اس قانون کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق کوئی ایک بھی شکایت سامنے نہیں آئی۔‘‘

Published: undefined

گزشتہ تین برسوں کے اعداد و شمار

پاکستانی سینیٹ کو مہیا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں 16,530کیسز میں مردوں کی جنس بدل کر انہیں جسمانی طور پر عورتیں بنا دیا گیا۔ اسی طرح 12,154 واقعات میں عورتوں کی جنس بدل کر انہیں مرد بنا دیا گیا۔ یہی نہیں گزشتہ تین سال کے دوران 21 واقعات ایسے بھی تھے، جن میں ٹرانس جینڈر افراد تبدیلی جنس کے بعد مرد بن گئے جبکہ صرف نو واقعات میں ٹرانس جینڈر افراد کی جنس بدل کر انہیں عورتیں بنا دیا گیا۔

Published: undefined

تین سال قبل منظور کردہ ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کے قانون کو نہ صرف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے سراہا تھا بلکہ اس قانون کا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی خیر مقدم کیا گیا تھا۔

Published: undefined

'ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی‘

پاکستانی مذہبی گروپ اور چند مذہبی سیاسی جماعتیں یہ دعوے کر رہی ہیں کہ اپنی موجودہ شکل میں یہ قانون ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پارلیمانی ایوان بالا میں اس قانون میں ترمیم کا مسودہ پیش کرنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں مردوں اور عورتوں میں ہم جنس پرستی کے کلچر کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا، ''جو شہری اپنی تبدیلی جنس کے لیے مخلتف حکومتی محکموں کا رخ کرتے ہیں، ان کا معاملہ دراصل آئندہ ضلعی سطح پر قائم کیے گئے میڈیکل بورڈز کے حوالے کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا، ''ہمیں ایسے واقعات کا علم ہے کہ کوئی مرد اپنی جنس بدلوا کر پہلے عورت بنا اور پھر اس نے کسی دوسرے مرد سے شادی کر لی۔ یہ طریقہ کار غیر اسلامی ہے اور اسے پاکستان میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

Published: undefined

موجودہ قانون کی حمایت

اسلام آباد میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''موجودہ قانون ایک اچھا قانون ہے اور رجعت پسند پاکستانی قوتیں اس قانون میں ترمیم لانا چاہتی ہیں۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بھی ترمیم صرف ٹرانس جینڈر افراد کو ہی متاثر نہیں کرے گی بلکہ اس کا اثر ان والدین پر بھی پڑے گا، جن کے بچوں کو طبی بنیادوں پر نئے سرے سے صنفی تعین کی ضرورت ہوتی ہے۔

Published: undefined

تبدیلی جنس کے آپریشن کرنے والے ایک پاکستانی سرجن ڈاکٹر امجد چوہدری نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''لوگ تو جنس اور جنسی شناخت کے بارے میں بات کرنے سے بھی بہت گھبراتے ہیں۔ متاثرہ افراد کے ساتھ اس بارے میں بات کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ تو ایسا کوئی شہری بھلا کسی میڈیکل بورڈ کے سامنے کیسے پیش ہو گا؟‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined