سماج

یا خود نپٹو یا راستہ دو

اس وقت پاکستان میں ایک بڑا انسانی المیہ ورق در ورق کھل رہا ہے۔ دس بلین ڈالر کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ پوری داستان کھلنے تلک اس سے بھی اوپر کا ہندسہ چھو سکتا ہے۔

یا خود نپٹو یا راستہ دو
یا خود نپٹو یا راستہ دو 

اس وقت پاکستان میں سیلاب نہیں بلکہ ایک بڑا انسانی المیہ ورق در ورق کھل رہا ہے۔ دس بلین ڈالر کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ پوری داستان کھلنے تلک بیس بلین یا اس سے بھی اوپر کا ہندسہ چھو سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر چھٹا پاکستانی کلی یا جزوی طور پر اس المیے کی زد میں ہے۔

Published: undefined

بین الاقوامی برادری نے گورننس سے متعلق تحفظات کے باوجود امداد کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سرکردہ عالمی این جی اوز بھی ہاتھ بٹانے کے لیے بے تاب ہیں۔ حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ اس المیے سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کی اور ہر طرف کی مدد درکار ہے۔

Published: undefined

ایسے میں پاکستان میں رجسٹرڈ اڑتیس بین الاقوامی این جی اوز کے پاکستان ہیومینٹیرین فورم کی جانب سے یہ بیان آیا ہے کہ خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے بعض متاثرہ علاقوں تک ہم اس لیے نہیں پہنچ پا رہے کیونکہ وفاقی حکومت کی تحریری اجازت درکار ہے۔ سرکاری عذر یہ ہے کہ بین الاقوامی این جی اوز کی بہت سے حساس علاقوں میں مکمل سیکورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

Published: undefined

جہاں جہاں رسائی کی اجازتہے وہاں وہاں تک بائیس بین الاقوامی امدادی اداروں اور بیرونی گرانٹ پر منحصر مقامی تنظیموں نے اب تک پونے دو لاکھ متاثرین کی مدد کی ہے۔ مگر بہت سے اندرونی علاقے اس وقت کٹے ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ پناہ، خوراک اور علاج معالجے کی سہولتوں کے منتظر ہیں۔ فورم کا کہنا ہے کہ اس ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں سرکار کے نافذ کردہ قواعد و ضوابط میں عارضی نرمی درکار ہے۔

Published: undefined

سرکاری صلاحیتیں اور امدادی انفراسٹرکچر کی کمزوریاں گزشتہ کی طرح اس المیے نے بھی ایک اور بار آشکار کر دی ہیں۔ مگر حکومت کے اندر بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں ہیں، جو غیر معمولی حالات میں بھی معمول کی سوچ یا بقول شخصے آؤٹ آف باکس حل نکالنے سے ہمیشہ کی طرح قاصر ہیں۔

Published: undefined

پاکستان کا عالمی این جی اوز اور امدادی اداروں سے رشتہ ہمیشہ سے اعتماد اور شک کے درمیان جھولتا آیا ہے ۔کبھی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو کبھی اچانک ملکی سالمیت، مقامی ثقافت اور دوست کے بھیس میں اغیار کی مسلمان دشمنی کا خیال زور پکڑ لیتا ہے اور شکنجہ کس دیا جاتا ہے اور جب نئی ابتلا آتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ شکنجے کا کون سا پیچ ڈھیلا کیا جائے اور کتنا کیا جائے۔

Published: undefined

جب آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو شمالی پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو کاروبارِ زندگی ایسا چوپٹ ہوا کہ بین الاقوامی اداروں کے لیے وہ تمام متاثرہ علاقے کھولنے پڑ گئے جہاں غیر ملکی بنا اجازت نامہ کبھی پر نہیں مار سکتے تھے۔ امریکی شنوک اور جاپانی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر ان علاقوں میں سینکڑوں پروازیں بھرتے رہے۔ یوں بیسیوں مقامی و بین الاقوامی امدادی اداروں کے تعاون سے امداد و بحالی کا کام تیز رفتاری سے ممکن ہو سکا اور ہزاروں زندگیاں بچا لی گئیں۔

Published: undefined

دو ہزار سات آٹھ میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصانات کی بھرپائی کے لیے امریکی کانگریس نے ساڑھے سات ارب ڈالر کا کیری لوگر پیکیج منظور کیا تو اس میں ڈیڑھ ارب ڈالر ایسے فلاحی منصوبوں کے لیے مختص ہوئے جنہیں بین الاقوامی این جی اوز کے توسط سے مکمل ہونا تھا۔ حکومتِ وقت نے تھوڑی بہت آنا کانی کے بعد یہ شرط مان لی اور یو ایس ایڈ اور ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمٹ کی معرفت متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہو گیا۔

Published: undefined

شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا تازہ باب تب کھلا جب دو ہزار دس میں اخبار نیویارک ٹائمز میں خبر چھپی کہ مبینہ طور پر پینٹاگون نے امریکی امدادی نیٹ ورک سے منسلک کچھ کنٹریکٹرز کو پاک افغان سرحدی علاقوں میں جہادی تنظیموں کے اندرونی نظامِ کار اور قبائلی ڈھانچے کی بدلتی ہیت سے متعلق معلومات جمع کرنے کا کام سونپا۔ اس رپورٹ کے بعد پاکستانی حساس اداروں نے ان علاقوں میں ریسرچ اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر کام کرنے والے اجنبیوں اور ان کے مقامی اتحادیوں کی نگرانی بڑھا دی۔

Published: undefined

البتہ اونٹ کی کمر اس آخری تنکے سے ٹوٹی جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے آپریشن کے کچھ دن بعد ”سیو دی چلڈرن‘‘ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سی آئی اے کی مدد سے ایک جعلی طبی مہم چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ مہم اسامہ بن لادن کے ڈین این اے کے حصول اور توثیق کے لیے منظم کی گئی تھی۔ چنانچہ کئی بین الاقوامی این جی اوز نے شدید تنقید کرتے ہوئے برملا کہا کہ اس حرکت سے تمام این جی اوز کی سلامتی، نیک نامی اور جاری منصوبے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔

Published: undefined

شکیل آفریدی کی گرفتاری کے نتیجے میں ”این جی او کلچر‘‘ کی مخالف مقامی تنظیموں کے ہاتھ میں تازہ ڈنڈہ آ گیا اور اس موقع کو ریاستی اداروں نے بھی این جی اوز کو پوری طرح قابو کرنے کے لیے خوب استعمال کیا۔ تمام غیر ملکی سفارت کاروں اور اقوامِ متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے حکام کو پابند کیا گیا کہ وہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں سے باہر وزارتِ داخلہ کے اجازت نامے کے بغیر نہیں جا سکتے۔

Published: undefined

دو ہزار پندرہ میں نواز شریف حکومت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے این جی او سرگرمیوں کو نکیل ڈالنے کا کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ”سیو دی چلڈرن‘‘ کو مکمل طور پر بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیا۔ جبکہ پندرہ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے اجازت نامے بھی کم ازکم چھ ماہ کے لیے معطل کر دیے گئے۔ ان میں اوکسفیم یوکے، نارویجن ریفیوجی کونسل، ڈینش ریفیوجی کونسل، کیتھولک ریلیف سروس، ورلڈ وژن اور مرسی کور جیسی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔

Published: undefined

نئے ضوابط کے تحت بین الاقوامی این جی اوز کی رجسٹریشن کا کام وزارتِ خزانہ کے اکنامک ڈویژن سے وزارتِ داخلہ کو منتقل کر دیا گیا اور این او سی کا اجرا حساس اداروں کی رضامندی سے مشروط ہو گیا۔ یہ بھی پابندی لگائی گئی کہ این جی اوز کے مقامی بجٹ کا صرف تیس فیصد انتظامی اخراجات کے لیے مختص ہو گا اور کسی بھی پروجیکٹ کی افرادی قوت میں دس فیصد سے زائد غیر ملکی عملہ شامل نہیں ہو گا۔

Published: undefined

ان پابندیوں کا اطلاق ان مقامیاین جی اوز پر بھی کیا گیا جنہیں بین الاقوامی امداد ملتی ہے۔ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں عمران حکومت کے دور میں اسلام آباد میں حساس اداروں نے ایکشن ایڈ سمیت اٹھارہ بین الاقوامی این جی اوز کے دفاتر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ سربمہر کر دیا اور انہیں ساٹھ دن میں اپنے منصوبے مکمل کر کے ملک چھوڑنے کا حکم یہ کہتے ہوئے دیا گیا کہ وہ چھ ماہ بعد دوبارہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔

Published: undefined

ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ پر منحصر درجنوں مقامی تنظیمیں بھی مفلوج ہو گئیں۔ یو ایس ایڈ نے بھی اپنے منصوبے مختصر کر دیے اور نئے منصوبوں پر سے ہاتھ اٹھا لیا۔

Published: undefined

اب مسئلہ یہ ہے کہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں زیادہ تر وہ علاقے ہیں جو قومی سلامتی کے اداروں کی ریڈ لسٹ میں ہیں۔ ان میں قبائلی پٹی سے متصل جنوبی خیبر پختون خواہ، یورینیم کی پیداوار کے لیے معروف پنجاب کا ضلع ڈیرہ غازی حان اور بدامنی سے دوچار بلوچستان شامل ہے۔ ان علاقوں میں مقامی این جی اوز فعال ہیں اور بہت اچھا کام کر رہی ہیں مگر جتنا وسیع بحران ہے اس کے ہوتے سب کا کام ملا کے بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔

Published: undefined

اس بحران نے قومی سلامتی کو حقیقی اندرونی خطرے میں ڈال دیا ہے مگر فیصلہ سازوں کی توجہ اب بھی بیرونی خطرات کے فریم میں پھنسی ہوئی ہے اور قیمتی وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ کوئی بھی دلیل روٹی، صاف پانی، خیمے، پناہ اور علاج سے بڑی نہیں ہو سکتی۔

Published: undefined

یا تو ریاست میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ اس قیامت سے اکیلے نمٹ سکے۔ اگر یہ صلاحیت بھی چوپٹ ہو تو پھر کون سی سلامتی اور کون سے کروڑوں لوگ کہ جنہیں انجانے بیرونی خطروں سے بچانا اس وقت بھی ترجیح ہے جبکہ وہ حقیقی خطرے کی طغیانی میں غوطہ زن ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined