افغانستان کے مغربی شہر ہرات سے ہر روز متعدد بسیں سینکڑوں افراد کو ایران اور افغانستان کی سرحد تک لے کر جاتی ہیں۔ وہاں وہ اپنے اسمگلروں سے ملتے ہیں اور پھر کئی دن تک پیدل سفر کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ ٹرکوں میں پھنس کر سفر کرتے ہیں اور کبھی چوروں اور بارڈر گارڈز سے بچتے ہوئے اندھیرے میں پہاڑی سلسلے پر پیدل سفر کرتے ہیں۔ ایران پہنچ کر وہ نوکری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ آگے یورپ کی طرف جانے کا سوچتے ہیں۔
Published: undefined
ایرانی سرحد تک لے جانے والی ایک بس میں سوار بیس سالہ ہارون نے بتایا کہ وہ اپنے دوست فواد کے ساتھ یورپ جانا چاہتا ہے۔''ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، یہاں معیشت کا بہت برا حال ہے، اگر ہمیں راستے میں مرنا بھی پڑا تو ہم اسے قبول کرتے ہیں۔''
Published: undefined
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ افغان حکومت کو چلانے کے لیے بین الاقوامی فنڈز بند کر دیے گئے ہیں۔ امریکا نے افغان حکومت کے غیر ملکی اثاثوں کو منجمند کیا ہوا ہے۔ دنیا طالبان کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ بین الاقوامی امداد کی کمی اور ملک میں خشک سالی نے کئی لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔ آبادی کا زیادہ تر حصہ بھوک کا شکار ہے۔
Published: undefined
ان حالات میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ نارویجین ریفیوجی کونسل کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں تین لاکھ افغان شہریوں نے اپنا ملک چھوڑا ہے اور ہر روز چار سے پانچ ہزار افراد افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں۔
Published: undefined
اگرچہ کئی افراد یورپ پہنچنا چاہتے ہیں لیکن یورپ پہنچنے والے افغان مہاجرین کی تعداد کافی محدود ہے۔ زیادہ تر ایران میں ہی نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ایران میں پہلے ہی تین ملین افغان مہاجرین رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایران اب ہر ہفتے اس کی سرزمین پر پہنچنے والے بیس سے تیس ہزار افغان شہریوں کو ملک بدر کر رہا ہے۔ انٹر نیشنل آرگینائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق صرف اس سال ایران نے گیارہ لاکھ افغان شہریوں کو واپس ان کے وطن پہنچایا ہے۔ یہ تعداد گزشتہ سال کی ملک بدریوں سے تیس فیصد زیادہ ہے۔
Published: undefined
ہرات میں ایک خاتون اسمگلر کا کہنا ہے کہ وہ ایک افغان شہری سے اس کو ایران اسمگل کروانے کا چار سو ڈالر معاوضہ لیتی ہے۔ لیکن اسے ایڈوانس رقم صرف سولہ ڈالر چاہیے ہوتی ہے۔ باقی کی رقم مہاجرین کام مل جانے کی صورت میں اسے بھیجتے ہیں۔ سفر کے دوران انسانی اسمگلر طالبان کو، ایرانی اور پاکستانی گارڈز کو رشوت بھی دیتے ہیں تاکہ وہ انہیں نہ روکیں۔
Published: undefined
ہرات افغانستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شہر ایرانی بارڈر سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ لیکن یہاں حکام کی جانب سے سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ اکثر شہری جنوب کی طرف تین سو میل دور نمروز کی طرف روانہ ہوتے ہیں یہاں وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں سے ایران داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
Published: undefined
رضا نامی ہرات کے شہری اپنے سترہ سالہ بیٹے کے ساتھ یہ سفر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت تھکا دینے والا سفر ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ ایران اور پاکستان کی سرحد پار کرنے کا ہوتا ہے۔ یہاں مہاجرین کو بہت کٹھن پہاڑی سلسلے پر پہلے اوپر چڑھنا ہوتا ہے اور پھر نیچے کی طرف اترنا ہوتا ہے۔ رضا کہتے ہیں، ''بہت اندھیرا ہوتا ہے لیکن سکیورٹی گارڈز سے بچنے کے لیے ٹارچ روشن نہیں کی جا سکتی۔'' رضا اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چڑھائی کے تنگ راستے پر ہر شخص کو لائن کی صورت میں چلنا پڑتا ہے اور جب ایرانی سرزمین پر نیچے کی طرف اترتے ہیں تو بہت دھیرے چلنا ہوتا ہے تاکہ گر نہ جائیں اور اگر کوئی گر جائے تو کوئی اسے اٹھانے والا نہیں ہوتا۔ رضا ایران پہنچ تو گئے لیکن شیراز شہر میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد پولیس نے انہیں پکڑ لیا اور واپس افغانستان بھیج دیا۔ رضا ایک مرتبہ پھر ایران جانا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں ان کے والد کا انتقال ہوا۔ اب وہ چالیس دن کے سوگ کے بعد ایک کوشش پھر کریں گے۔'' میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں، یہاں کچھ نہیں ہے۔''
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز