واضح رہے کہ اسلام آباد کے پہلے ہندو مندر کی تعمیرگزشتہ ہفتے شروع ہوئی تھی۔ شری کرشنا نامی یہ مندر ایک کمپلیکس نما عمارت میں ہوگا، جس میں شمشان گھاٹ، کمیونٹی ہال، مہمانوں کے لیے رہائش گاہ اور پارکنگ کی جگہ بھی ہوگی۔ اس کی تعمیر کی منظوری 2017ء میں نون لیگ کی حکومت نے دی تھی تاہم انتظامی معاملات کی وجہ سے اس کی تعمیر میں تاخیر ہوئی۔
Published: undefined
ملک کی ہندو کونسل کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی تقریبا 80 لاکھ کے قریب ہے، جس میں زیادہ ترصوبہ سندھ میں رہتے ہیں۔ واضح رہے پاکستان میں تقسیم ہند کے وقت اقلیتوں کی 25 فیصد آبادی تھی، جس میں ایک بڑی تعداد سندھ اور اس وقت کےمشرقی پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کی تھی، اب یہ شرح صرف پانچ فیصد کے قریب ہے۔
Published: undefined
مندر کی تعمیر کو پاکستان کے لبرل حلقوں نے سراہا ہے۔ تاہم پاکستان کے مذہبی حلقے اس کی بھر پور مخالفت کر رہے ہیں۔ لاہور کی جامعہ اشرفیہ کے ایک فتوے میں اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ یہ فتوٰی سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔ ماضی میں اسلام آباد کی لال مسجد سے منسلک رہنے والی شہداء فاؤنڈیشن نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور اس کی تعمیر کے خلاف عدالت جانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ فاؤنڈیشن کی حجت یہ ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے سرکاری زمین نہیں دی جاسکتی۔ جامعہ حفصہ کی پرنسپل اُم حسان نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسلام ایسے کسی نئے مندر کی اجازت نہیں دیتا۔ حکومت کا یہ اقدام شریعت کے خلاف ہے کیونکہ اگر کوئی پرانا شہر ہے جہاں پہلے سے ہی ہندو ور مسلمان رہ رہے ہوں اور جہاں پہلے ہی سے مندر قائم ہوں تو ایسے مندر کو کام کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے اور وہاں پر عبادت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت نئے مندر تعمیر نہیں کر سکتی۔ ہم نے پہلے بھی اس کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور ہم اب بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
مذہبی حلقوں کے اس رویے اور مخالفت کی وجہ سے اقلیتی اور ہندو کمیونٹی میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ مٹھی سندھ سے ہندو کمیونٹی کے رہنما کرشن شرما نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ مخالفت مثبت نہیں ہے کیونکہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ ہمیں اس رد عمل پر افسوس بھی ہوا ہے اور مایوسی بھی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہیں اور قائد اعظم کے تصور پاکستان کے مطابق ریاست کا مذہبی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میرے خیال میں ریاست کو اس مخالفت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام شہری اپنے مذہبی معاملات آزادی سے کام کریں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان ہندو کونسل کے رہنما اور نیشنل کمیشن آف منارٹیز کے رکن ڈاکٹر جے پال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ حکومت نے مندر تعمیر کرنے کا آغاز کیا لیکن مجھے اس بات پر تشویش ہے اور افسوس ہے کہ کچھ عناصر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سننا چاہیے جس میں جناح نے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کی با ت کی ہے۔ تو جو مخالفت کر رہے ہیں، ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم بھی برابر کی شہری ہیں۔‘‘
Published: undefined
پاکستان کے ترقی پسندی حلقے اس مخالفت کو مذہبی طبقات کی منافقت قرار دے رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند دانشور فاروق طارق کا کہنا ہے کہ ہمارے مولوی پوری دنیا میں مسجدیں بنا رہے ہیں اور یہاں وہ اقلیتوں کو دبا کر رکھنا چاہتے ہیں: ''یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یورپ میں تو مولوی مقامی حکومتوں سے مسجد و مدرسے کی تعمیر کے لیے فنڈنگ لے رہے ہیں۔ پورے یورپ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں مساجد تعمیر کر رہے ہیں اور یہاں ایک مندر کے تعمیر ہونے پر یہ شور مچا رہے ہیں۔ ہم اس تعمیر کو مثبت سمجھتے ہیں اور جو مولوی اس کی مخالفت کر کے اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز