انیلہ نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سے میڈیا سٹیڈیز میں ایم فل مکمل کیا ہے۔ انیلہ تھیسز جمع کروانے یونیورسٹی گئی تو ان کے سپروائزر نے انہیں اپنے آفس میں لاک کر لیا۔ ان کا موبائل اپنے قبضے میں لیا اور اسی سپروائزر کے رویے کے بارے میں مشترکہ گروپ میں انیلہ کی شکایت پر انیلہ ہی کے فون سے معذرت کا میسج بھیجا۔
Published: undefined
یونیورسٹیز میں جنسی ہراسانی کی شکایات نئی نہیں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے شکایات کو کبھی بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے بڑا خطرہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور وہی یونیورسٹی ہے، جن کے افسران اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔ ان کے فون اور لیپ ٹاپ سے 200 سے زائد طالبات کی نازیبا ویڈیوز ملنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔
Published: undefined
یہ اسی سال کہ بات ہے جب مجھے پنجاب کے ایکسائز اینڈ ٹیکسٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے جونیئر کلرک کی جانب سے نامناسب پیغامات ملنا شروع ہوئے۔ میں نے ادارے میں ورک پلیس ہیرسمنٹ کے حوالے سے درخواست دائر کی اور ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی میں موجود خاتون ممبر نے سماعت کے دوران مجھ سے عجیب سوالات کیے کہ وہ تو آپ سے صرف بات کرنا چاہ رہا تھا، اس میں ہراسمنٹ کہاں سے آ گئی وغیرہ۔ تب مجھے اس بات کا احساس بہت شدت سے ہوا کہ کمیٹی بنانا ہی اہم نہیں بلکہ کمیٹی میں ٹرینڈ لوگوں کا شامل ہونا بہت اہم ہے۔ کچھ ایسے ہی مسائل یونیورسٹیز کی طالبات نے بھی بیان کیے۔
Published: undefined
میں نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت اسلام آباد کی 17 یونیورسٹیز سے جاننے کی کوشش کی کہ ایچ ای سی کی ہراسمنٹ کمیٹیوں کو تشکیل دینے کے حکم نامے کے مطابق 2018ء سے اب تک ان تعلیمی اداروں میں کونسی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ان کمیٹیوں کو کتنی شکایات موصول ہوئیں اور ان پر کیا کارروائیاں ہوئیں۔
Published: undefined
مجھے پہلی کام ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے موصول ہوئیں۔ ایک محترمہ ایچ آر سے بات کر رہی تھیں اور پہلا سوال یہی داغا کہ آپ کون ہوتی ہیں ہم سے یہ سب تفصیل پوچھنے والی اور ہم آپ کو کیوں یہ سب بتائیں۔ کچھ قانون سمجھانے کی کوشش کی مگر افسوس۔ آخر مجھے کہنے لگیں کہ آپ سے اب ہمارے وکیل ہی بات کریں گے۔ یہی نہیں بلکہ کامسیٹس یونیورسٹی کے پی ای او بھی بضد رہے کہ وہ تفصیلات شیئر نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے گی۔
Published: undefined
قابل غور بات اس سب عمل میں یہ رہی کہ ان تعلیمی اداروں نے میری درخواست کے دس دن کے اندر مجھے معلومات دینی تھیں، جو نہیں دی۔ معاملہ پاکستان انفارمیشن کمیشن میں رہ گیا، جنہوں نے قانون کے مطابق میری اپیل کے 60 دن کے اندر سماعت مقرر کرنی تھی مگر یہ سماعت دو ماہ کے بہت بعد کی دی مگر اس پر بھی صرف سات یونیورسٹیز نے کچھ نامکمل معلومات فراہم کیں۔ جبکہ 9 یونیورسٹیز نے معلومات نہیں دیں۔
Published: undefined
حیرت انگیز طور پر ان تمام یونیورسٹیز کی جانب سے فراہم کیے گئے ڈیٹا میں ایک بھی درخواست کسی طلبہ کی جانب سے کسی فیکلٹی ممبر کے خلاف نہیں تھی۔ اسلام آباد کی مختلف یونیورسٹیز سے اکثر جنسی ہراسانی کا دھواں بلند ہوتا آیا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ کسی خاتون نے کبھی ہراسمنٹ کمیٹی میں کوئی درخواست جمع نہیں کروائی؟ سوالات بے شمار ہیں، جو یہ بتانے میں مددگار ہوں گے کہ اساتذہ کی جانب سے سمسٹر میں فیل کیے جانے کا خوف طلباء کو کسی بھی قانونی چارہ گوئی سے دور رکھتا ہے۔
Published: undefined
ایچ ای سی کی یونیورسٹیز کے اندر ہراسمنٹ کمیٹیاں بنوا دینے سے یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ کسی طالبہ کی کوئی چارہ گوئی نہیں ہو سکی کیونکہ مضبوط آج بھی ظلم کا وہی نظام ہے، جو بچیوں کو ڈگری مکمل کرنے کے خوف سے چپ کروا دیتا ہے یا پھر والدین کی معاشرے میں اچھلتی عزت کے خوف سے اور ہمارے معاشرے میں بچیوں کا اعلی تعلیم کا خواب، جنس کے ان بچاریوں کے ہاتھوں مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ مگر داد رسی کرے بھی تو کون؟
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined