سماج

مردوں کے معاشرے میں خواتین اپنا حوصلہ بلند رکھیں

بس اسٹینڈ پر انتظار کی زحمت اور کنڈیکٹرز کی گندی نظروں سے بچنے کے لیے پاکستان میں اب بائیک چلانے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مردوں کے معاشرے میں خواتین اپنا حوصلہ بلند رکھیں
مردوں کے معاشرے میں خواتین اپنا حوصلہ بلند رکھیں 

قیامِ پاکستان سے ہی سننے کو مل رہا ہے کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ اس محاورے کو کس نے زبان زدِ عام کیا یہ معلوم نہیں۔ شاید اسی لیے ہمارے ملک میں خواتین کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

Published: undefined

سنگین مسئلہ ہے کہ تعلیم، نوکری یا کسی ضرورت کے تحت جیسے ہی گھر سے کوئی خاتون باہر نکلتی ہے تو اسے باہر کی دنیا میں انوکھا ہی سماں ملتا ہے۔ چاہے وہ دفتری حدود ہو یا بس اسٹینڈ، راستے میں خاتون کو دیکھ کر آواز کسنا، گانا گنگنانا، سیٹی مارنا، بائیک کی اسپیڈ تیز کرنا اب صرف نوجوان لڑکوں کا کام نہیں رہا اس کارِ خیر میں ادھیڑ عمر کے مردوں کے تو کیا ہی کہنے۔ دراصل جہالت اور عدمِ احترام ہمارے سماج کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

Published: undefined

راہگیر خاتون خواہ اس نے حجاب ہی کیوں نہ اوڑھا ہو کچھ اور نہیں تو اس کے پاؤں پر تبصرہ ہونے لگتا ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ بحیثیت قوم ہم کس ڈگر پر گامزن ہیں ؟ یہ المیہ ہے کہ خواتین گھر سے باہر نکلیں تو بعض مرد ان کو پزل کرنے کی غرض سے اوور ایکٹینگ شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی خاتون کسی مرد کے خلاف شکایت کی جسارت بھی کرے تو اس پر بلیک میل کرکے دولت سمیٹنے اور سستی شہرت کے لیے جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے۔

Published: undefined

یہی ٹھوس وجہ ہے کہ خواتین پولیس اسسٹیشنز کا رخ کرنے سے بھی گھبراتی ہیں کہ اگر شکایت کی تو ان کی بہنوں کے رشتے نہیں ہوں گے یا انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑےگا یا ہو سکتا ہے کہ گھر والے گھٹن زدہ ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تعلیم پر قدغن لگا کر اسے تعلیم کے زیور سے محروم کردیں۔ اس لیے خواتین خاموشی کے ساتھ غصہ کو قابو میں رکھتے ہوئے گزر جاتی ہیں۔ پانچ سے سات سال قبل یہ گمان نہیں کیا جاسکتا تھا کہ پاکستانی خواتین معاشرتی رسم ورواج کی پابندیوں کے برعکس موٹر بائیک چلائیں گی۔

Published: undefined

موسمیاتی سختیوں کے باوجود بس اسٹینڈ پر انتظار کی زحمت اور اس میں بھی بیٹھنے کے لیے سیٹ ملنے کی کوئی گارنٹی نہ ہونا نیز کنڈیکٹرز کی گندی نظروں سے بچنے کےلیے پاکستانی معاشرے میں اب بائیک چلانے والی خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی خواتین جو ٹرانسپورٹ کی بناء پر اپنے شوہر، والد یا بھائیوں کے ہمراہ اپنے تعلیمی اداروں، دفاتر، کلینک یا شاپنگ سپاٹ پر جانے پر مجبور ہوتی تھیں۔ اب وہ موٹر بائیک پر آسانی سے کہیں بھی پہنچ سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں مہنگائی کے اس دور میں جگہ جگہ ٹرانسپورٹ تبدیل کرنے سے بےجا خرچوں میں نمایاں کمی آتی ہے۔

Published: undefined

خواتین کا اپنی مدد آپ کے تحت اسکوٹی، بائیک پر سفر کرنا ایک خوش آئند عمل ہے۔ سڑک پر ہی کچھ مرد بائیک پر سوار خواتین کے ساتھ ریس چیلنج شروع کر دیتے ہیں۔ پھٹی پھٹی نگاہوں سے کبھی بائیک کی سپیڈ تیز کبھی کم کرکے خاتون کا جائزہ لیتے ہیں۔

Published: undefined

جو خواتین اس سواری سے مستفید ہو رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ غیر مہذب رویوں کی شکایات تو ایک عام چیز ہے۔ بس اسٹاپ پر کئی مرد حضرات اپنی سواری روک کر یا دھیرے کرکے آنکھوں سے خواتین کو لفٹ کا اشارہ کر دیتے ہیں، جو کہ کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ لہذا خواتین ہمت و حوصلہ کی مثال بنیں، مضبوط رہیں ورنہ انجانے حزن سے وہ اپنے تابناک مستقبل سے محروم رہ سکتی ہیں۔

Published: undefined

ہمارے معاشرے میں دقیانوسی سوچ کے حامل افراد خودمختار بائیک چلانے والی خواتین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ خواتین کا بائیک پر اس انداز سے بیٹھنا ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ نہیں۔ حالانکہ یہ سب کم عملی و جہالت کا نتیجہ ہے، عرب ممالک میں خواتین اونٹوں اور گھوڑوں پر اسی طرز سے بیٹھتی ہیں۔

Published: undefined

مرد اور عورت دونوں ہی معاشرے کے معمار ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے کردار کو ہٹا کر ہم معاشرتی استحکام و بقاء کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ جس طرح ہر ایک اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی کو مقدس سمجھتا ہے، اسی طرح دوسری خواتین کے احترام کو بھی لازمی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined