اس ملاقات میں وہ مجھے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں اردو کی چند نایاب کتب حاصل ہوئی تھیں۔ ایک کتاب کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ گورنمنٹ کالج لاہور کی لائبریری میں آخری نسخہ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ کتاب کیسے حاصل کی، اس بارے میں مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا۔
Published: undefined
پھر چند ماہ بعد میری ملاقات ان کی بیٹی سے ہوئی۔ میں نے ان سے کتابوں کے بارے میں پوچھا کہ ان کے والد کے پاس جو کتابوں کا پورا ذخیرہ تھا، وہ کہاں ہے؟ ان کی بیٹی نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا کہ وہ تو ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو چکی تھیں اور انہوں نے بس دو چار کتابیں ہی اپنے پاس رکھی تھیں، جو وہ اردو سیکھنے کے بعد پڑھنا چاہتی تھیں اور باقی ساری کتابیں انہوں نے پھینک دی تھیں۔
Published: undefined
مجھے یہ سن کر بہت رنج ہوا تھا کہ کتنی اچھی کلیکشن تھی ان کے والد کے پاس اور کیسے وہ ساری کی ساری کتابیں ضائع ہو گئی تھیں۔ اس کے چند برس بعد جرمنی میں عشروں تک اردو صحافت سے وابستہ رہنے والے ایک بزرگ کا انتقال ہو گیا۔ ان کے پاس بھی معیاری کتب کا ڈھیر تھا۔ ان میں سے بیس تیس فیصد کتابیں ان کے مصنفین کی دستخط شدہ تھیں۔ ان میں سے بھی کئی مشہور کتابیں کچھ دوستوں نے لے لیں اور باقی سب کوڑے دان کا حصہ بنیں۔
Published: undefined
مغربی ممالک میں ایسی کئی مثالیں میں نے خود بھی دیکھی ہیں۔ ترک وطن کر کے آنے والے کتابیں بھی ساتھ لاتے ہیں لیکن ان کی مغرب میں پیدا ہونے والی نئی نسل اردو سے ناواقفیت کے باعث بعد میں وہی کتابیں اکثر کوڑے میں پھینک دیتی ہے۔ جرمنی جیسے ممالک میں پیدا ہونے والے زیادہ تر پاکستانی نژاد بچے اُردو بول تو لیتے ہیں لیکن اردو لکھنا پڑھنا ان بچوں کو بہت کم ہی آتا ہے۔
Published: undefined
ویسے تو ماضی میں مغربی طاقتیں بھی مشرق سے ہزاروں نایاب کتب اور نسخے اپنے ممالک میں لاتی رہی ہیں۔ ایسا کئی مرتبہ جنگوں کے دوران لوٹ مار کے دوران کیا گیا اور کئی مرتبہ یہاں سے جانے والے سیاح ان کتابوں کو ساتھ لے آئے۔
Published: undefined
آپ کو یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ امیر خسرو کا زیادہ تر اوریجنل کام، اشعار، مثنوی، قصیدے اور پہیلیاں بھی جرمنی سے ہی ملے تھے۔ خیر وہ مواد اب ایک لائبریری میں محفوظ ہے۔ لیکن امیر خسرو کا لٹریچر جرمنی کیسے پہنچا یہ ایک الگ کہانی ہے۔
Published: undefined
آج میں بھی ایک ایسی ہی الماری خالی کر رہا تھا۔ اس الماری میں بھی درجنوں کتب دستخط شدہ ہیں لیکن جن کو یہ کتابیں ملیں، یا جنہوں نے یہ خریدیں، وہ اب موجود نہیں۔ لوگوں کے گھر چھوٹے ہیں، ڈیجیٹل دور ہے، مصروفیات زیادہ ہیں اور کسی کے پاس وقت نہیں کہ ان کی چھان بین کر کے بہت اچھی کتابوں کو الگ کر سکے۔
Published: undefined
اگر ایسا کر بھی لیا جائے، تو ان کتابوں کو رکھے گا کون؟ اگر کوئی رکھ بھی لے، تو چند برس بعد انہیں پڑھے گا کون؟ میں کبھی کبھار فیس بک پر ایسی پوسٹیں دیکھتا ہوں کہ کیسے اچھی اچھی اور نایاب کتابیں ملک سے باہر لائی جا رہی ہیں اور پھر میں سوچتا ہوں کہ آیا ان کا مقدر بھی مغرب کے کوڑے دان ہی بنیں گے؟
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined