پرانے شہر کے رہائشی علاقوں کی خاص بات یہ ہے کہ کئی نسلوں سے یہاں رہنے والوں کا آپسی رابطہ بہت قریبی ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ اور سکھ میں نہ صرف برابر کے شریک ہوتے ہیں بلکہ گھروں کی جڑی دیواروں سے آتی آوازیں اس گھر کے حالات سے بھی با خبر رکھتی ہیں۔
Published: undefined
انہی میں ایک گھر ایسا ہے، جہاں اٹھارہ بیس برس کا ایک ذہنی اور جسمانی طور پر معذور نو جوان حیدر اپنے خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پلتا، بڑھتا دیکھا ہے۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب محلے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کچھ کے خیال میں اس بچے پر کسی آسیب کا سایہ تھا اور چند ایک کے مطابق یہ اس کے والدین کے کسی گناہ کے صلے میں قدرت کی طرف سے ملی سزا تھی۔
Published: undefined
اس کے والدین، اسے گود میں اٹھائے پیروں، فقیروں اور درگاہوں کے چکر لگاتے رہتے۔ اس معصوم جان کو شاید نہ ٹھیک ہونا تھا اور نہ وہ ہوا، اب صورت حال یہ ہے کہ یہ بچہ شفایاب نہیں ہوا۔ لیکن وہ اہم وقت ضائع ہو گیا جو اس کی زندگی کے بنیادی شعور کی تربیت میں لگایا جا سکتا تھا۔
Published: undefined
ماں باپ جو اب ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال سے قاصر ہیں، ان کے پاس یہی چارہ ہے کہ اس کے پاؤں میں ایک زنجیر ڈال کر اسے گھر کے دروازے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اور یہ انسان ہر آتے جاتے پر آوازیں کستا ایک تماشا بنا رہتا ہے۔ ایسے حالات میں نہ تو کوئی ان کے گھر آتا جاتا ہے اور نہ ہی یہ لوگ خود کسی سے سماجی میل جول رکھنے کے قابل رہے ہیں۔
Published: undefined
اسی تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ رحمان، جس کا خاندان نسبتاً بہتر معاشی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کے گھر والے اس کے لیے بہترین تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی کر سکتے تھے لیکن وہاں بھی تمام زور، تعویز گنڈوں اور اسی طرح کے ٹوٹکوں پر رہا۔ یہ بچہ بچپن سے ہی اپنے دادا جان کے بہت قریب تھا، جو اسے ہر جگہ ساتھ لیے پھرتے، اس کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے لیکن ان کے انتقال کے بعد حالات دگر گوں ہیں۔
Published: undefined
اس کے گھر والوں کا خیال تھا کہ اگر اس نو جوان کی شادی کر دی جائے تو آہستہ آہستہ یہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ خیال کی حد تک تو یہ بات قابل قبول ہی تھی لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ اسے رشتے مل بھی جاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں اس کی تین شادیاں ہوئیں، جن کا انجام طلاق پر ہوا اور اب چوتھی شادی کے لیے پھر سے کسی "مناسب" رشتے کی تلاش جاری ہے۔
Published: undefined
جسمانی معذور افراد، جن کی ذہنی صلاحیتیں برقرار ہیں۔ ان کی زندگی بھی آسان نہیں لیکن یہاں میرا موضوع ذہنی معذوری کے شکار افراد ہیں، جن کے لیے جینے کے معنی ہی کچھ اور ہیں۔ زندگی کی ڈور سے بندھے یہ لوگ ہمارے ارد گرد کے ماحول کا حصہ ہیں۔ انہیں سائیں، جماندرو، اللہ لوک اور اسی طرح کے دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن ان کی صحت، روزگار، سماجی شعور اور تربیت کے متعلق تو کیا کہنا۔ان لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور بہ تر سلوک کے متعلق تربیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔
Published: undefined
ذہنی معذوری کے اسباب میں دوران پیدائش، بنیادی حفظان صحت کے اصولوں کو نظر انداز کرنے جیسی سادہ وجہ سے لے کر جنیٹکس اور جینز جیسی پیچیدہ وجوہات کو قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے نزدیک اس کی ایک بڑی وجہ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں کرنے کا رواج بھی ہے۔
Published: undefined
ذہنی معذوری کے شکار افراد کے خاندان، بالخصوص والدین دوہری مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے کی شخصیت کی مشکلات اور ایڈجسٹمنٹ کے مسائل کی وجہ سے بہت سے والدین اپنی زندگی کو دکھی سمجھتے ہیں۔ جب کہ کچھ والدین ذہنی طور پر معذور بچے کو نظر انداز کرتے ہیں، تو کہیں کچھ والدین اس کی مدد کرنے کے لیے اس کی حد سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں۔
Published: undefined
یہ تمام عوامل ایک بچے کو کچھ بھی سیکھنے یا حاصل کرنے کی بجائے اسے مکمل طور پر نا اہل بنا دیتے ہیں۔ لہذا والدین کو مناسب طریقے سے تربیت دی جانی چاہیے کہ اگر ان کا بچہ جسمانی یا ذہنی طور پر کچھ کمزور ہے تو اسے کس طرح اور کیسے سنبھالنا ہے۔ اس طرح کے بچوں کا مناسب خیال رکھنا اور انہیں پیار دیا جانا چاہیے۔ والدین کو ہمدرد ہونا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان افراد کی بنیادی تربیت پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے گریز کرنا چاہیے۔
Published: undefined
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ ذہنی معذور افراد کے بارے میں آگہی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ترقی پذیر معاشروں میں اب بھی بہت زیادہ بہتری کی گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ان افراد اور ان کی ضروریات کے متعلق معاشرتی شعور میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ افراد کسی گناہ کی سزا، کسی جن بھوت کا سایہ یا کسی بد دعا کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہماری ہی طرح کے انسان ہیں، جن کی ضروریات قدرے مختلف ہیں۔
Published: undefined
بچپن میں جتنا جلد ان کی معذوری کی تشخیص ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ تشخیص کی صورت میں پیروں، فقیروں اور حکیموں کے پیچھے بھاگ کر وقت اور پیسا برباد کرنے کی بجائے ان افراد کی تربیت پر توجہ دی جانی چاہیے، تا کہ یہ بچے اپنی بنیادی ضرورتوں کو خود سے پورا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
Published: undefined
دوسری طرف معذوری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر خصوصی تعلیم کو بطور ایک اختیاری مضمون شامل کیا جا سکتا ہے، تا کہ تمام شعبہ جات کے لوگ خصوصی بچوں کی ضروریات اور معذوری کے بارے میں جان سکیں اور معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایسے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت اور بحالی میں اپنا حصہ ڈال سکے۔
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined