سماج

پاکستان کی نوجوان نسل، سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار

ففتھ جنریشن وار کے ہتھیار مہلک نہیں لیکن تباہ کن ضرور ہیں۔ اس کے اہم ہتھیاروں میں بے بنیاد پروپیگنڈہ، میڈیا لٹریسی کا ناجائز فائدہ اور تعمیری سوچ کو جھوٹی انفارمیشن سے تباہ کرنا شامل ہیں۔

پاکستان کی نوجوان نسل، سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار
پاکستان کی نوجوان نسل، سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار 

ترقی پذیر ممالک کے رہنماؤں کو ففتھ جنریشن وار کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا سامنا نہ کرنے کی صورت میں ترقی پذیر ممالک کی دنیا میں زندہ رہنے کی صلاحیت خطرے میں پڑ سکتی ہے اگر وہ اس جنگ کی شدت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ ترقی پذیر اقوام کے لیے ففتھ جنریشن وار کو شکست دینے کے لیے حکمت عملی ترتب دینی چاہیے۔ فوری طور پر کارروائی کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ان کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کو زنگ لگ جائے گا، جس سے یہ ممالک تباہی کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔

Published: undefined

پچھلی صدی میں بہت سی عملی اور تکنتکی ترقی ہوئی ۔ اسی دوران دنیا میں گزرنے والے حالات کے مختلف ماڈل بنائے گئے۔ جس میں جنگوں کے ماڈلز کو "وار فئیر ماڈل " کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1648 میں اس اصطلاح کو استعمال کیا گیا اور اس کی بنیاد پر امن معاہدہ Treaty of Westphalia کیا گیا۔ یہ جنگ جرمنی اور دیگر ممالک کے درمیان تھی۔ یہ جنگ فرسٹ جنریشن وار کہلاتی ہے جس میں قریباً 80 لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔ اسی طرح سیکنڈ جنریشن وار کی اصطلاح 1989 کے بعد استعمال کی گئی جب ہتھیار کسی حد تک جدید اور خطرناک ہو چکے تھے۔ تھرڈ جنریشن وار میں دشمن کو سامنے سے وار کی بجائے پیچھے سے وار کرنے پر زیادہ فوکس کیا گیا۔ فورتھ جنریشن وار میں لڑی جانے والی جنگوں میں جنگ اور سیاست کو ملا دیا گیا اور سیاست کا خاکہ بدل دیا گیا۔

Published: undefined

آج کل جو جنگ کا طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے اسے ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ایک قوم دوسری قوم کو اپنے مطلوبہ سانچے میں ڈھال سکے۔ پاکستان اس وقت ففتھ جنریشن وار کا شکار ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی بہت کچھ واضح ہے سب کچھ دھندلایا نہیں ہے۔ لیکن حقیقتاً اس میں اس قسم کی ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ابہامات اور شکوک شبہات کے سیلاب کی وجہ سے تمام منظر دھندلا جاتا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو دیکھیں تو اس پر موجود مواد تسکین کی بجائے تشکیک کا سبب بنتا ہے۔ یعنی سوشل میڈیا اس جنگ کا اہم ترین ہتھیار ہے۔ جس میں طرح طرح کی وڈیوز، تصاویر، پوسٹس، اسٹیٹس اور تحریریں وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو بہکایا جاتا ہے، نتیجتاً قوم کی حیثیت اور مقام داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ہم نے اس کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے کوئی حد بندی نہیں کی ہے جیسا کہ ایران، چین، ترکی اور ملایشیا میں کیا گیا ہے۔

Published: undefined

اب سسکتھ جنریشن وار جو کہ روائتی طریقہ سے ہٹ کر ہے اس میں ٹیکنالوجی اور مختلف اتحاد سامنے آ رہے ہیں۔ جس سے اکثر قوموں کو تباہ کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ مگر ہم ابھی ففتھ جنریشن وار سے نمٹنے کی حکمت عملی ہی طے نہیں کر پا رہے۔ اس کا ٹارگٹ زیادہ تر نوجوان نسل ہے۔

Published: undefined

یہ جنگ میڈیا کی ہے اس میں میڈیا کااستعمال بہت احتیاط سے کرنا پڑے گا۔ میڈیا کا میدان بہت وسیع ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا نوجوانوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے سینسر پالیسی سخت کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ تحقیق کی عادت کو پروان چڑھانا پڑے گا تاکہ کسی بھی غلط خبر یا کسی بھی غلط مفروضے کی صورت میں اس پر اعتبار نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کی تجزیہ کی عادت کو بھی نکھار کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ عادت بہترین مدد گار ہوتی ہے کہ سنی سنائی باتوں پر عمل کی بجائے ان پر تحقیق کی جائے۔ ان باتوں پر عمل وہی کرتا ہے جو با صلاحیت ، جرات مند اور تحقیق کی عادت نہ رکھنےوالا ہو۔ تعلیم اور آگہی اس کے مخالف ہتھیار مانے جاتے ہیں۔

Published: undefined

جنگ کے اس ماحول میں نوجوان کا اپنی حکمت و فراست سے کام لینا بھی ازحد ضروری ہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ کون سے ایسے عوامل اور امور ہیں جو ہمارے لیے، ہماری قوم کے لیے مفید ہیں تاکہ انہیں اپنایا جائے۔ اور کون سی ایسی چیزی ہیں جو محض بناوٹی اور جعلی ہیں تاکہ ان کی نشان دہی کرکے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور قوم میں شعور اجاگر کیا جائے۔

Published: undefined

اس ضمن میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا یا میڈیا استمال کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ کیونکہ آپ کا شئیر کیا ہوا مواد ان گروپس کی توجہ کا مرکز بنتا ہے جو مذہبی طور سے یا سیاسی طور سے آپ کے میلان کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کوغیر محسوس طریقے سے ایسی تنظیموں کا حصہ بنا لیتے ہیں جو انتشار پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined